• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 60141

    عنوان: ایک گاڑی اگر پچاس ہزار کی ھے اور قسطوں پر اسکی قیمت ساٹھ ھزار ہوتی ہے توایسی صورت میں کیا گاڑی لینا جائز ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں پتہ ہے کے ان قسطوں میں کچھ حصہ سود کا بھی شامل ہے ۔آپ کے مسائل اور انکا حل کتاب میں اس مسئلہ کو درست بتا یا ہے کہ قسطوں کی رقم ایک بار مقرر کردے تو یہ سود کے حکم میں شامل نہیں ہو گا؟ اس مسئلہ کا حل بتا دیں۔

    سوال: ایک گاڑی اگر پچاس ہزار کی ھے اور قسطوں پر اسکی قیمت ساٹھ ھزار ہوتی ہے توایسی صورت میں کیا گاڑی لینا جائز ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں پتہ ہے کے ان قسطوں میں کچھ حصہ سود کا بھی شامل ہے ۔آپ کے مسائل اور انکا حل کتاب میں اس مسئلہ کو درست بتا یا ہے کہ قسطوں کی رقم ایک بار مقرر کردے تو یہ سود کے حکم میں شامل نہیں ہو گا؟ اس مسئلہ کا حل بتا دیں۔

    جواب نمبر: 60141

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 548-548/Sd=10/1436-U ادھار کی وجہ سے مبیع کی قیمت میں اضافہ کرنا مطلقاً سود نہیں ہوتا، صورت مسئولہ میں اگر گاڑی کی اصل قیمت پچاس ہزار ہے؛ لیکن قسطوں پر لینے کی صورت میں اس کی قیمت ساٹھ ہزار ہوتی ہے، تو قسطوں پر ساٹھ ہزار میں گاڑی خریدنا جائز ہے، بشرطیکہ عقید کے وقت ہی گاڑی کی ایک قیمت متعین ہوجائے اور قسطوں کی ادائیگی کی مدت بھی طے کرلی جائے، نیز وقت مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قیمت بڑھانے کی شرط نہ ہو یا اگر شرط ہو تو مشتری کو متعینہ مدت میں قیمت ادا کرنے کا اطمینان ہو۔ واضح رہے کہ عموماً بینکوں سے قسطوں پر گاڑی خریدنے میں سود کی شکل پائی جاتی ہے، بینک گاڑی کا مالک نہیں ہوتا، وہ گاڑی کی مالک کمپنی کو نقد رقم ادا کردیتا ہے اور خریدار کے نام لون جاری کرکے قسطوار وصول کرتا ہے؛ لہٰذا بینک کے ذریعے مذکورہ تفصیل کے مطابق قسطوں پر گاڑی خریدنا اُسی وقت جائز ہوگا جب کہ بینک گاڑی کا مالک ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند