• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 601361

    عنوان:

    سودی رقم بینك اكاؤنٹ ركھنے كے چارج میں دینا یا ااس رقم سے بیت الخلاء بنانا كیسا ہے؟

    سوال:

    ہماری بستی میں” انجن حیات الاسلام“ نام کی ایک کمیٹی ہے جس کی زیر نگرانی میں مسجد، مکتب، بیت المال اور گاؤں کے دیگر اجماعی کام انجام پاتے ہیں، اسی کے نام سے دو بینک ا کاؤنٹس ہیں، ایک سیونگ ، دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ، سیونگ اکاؤنٹ میں کچھ سودی رقم سال گذرنے کے بعد آتی ہے، لیکن کرنٹ اکاؤنٹ میں سالانہ اکاؤنٹ رکھنے کے نام پر کچھ رقم کٹ جاتی ہے اور سود بھی نہیں ملتا، اس کے علاوہ ہماری بستی میں ایک دہلیز نام کی جگہ ہے جس کو ہم رفاہ عام کے کام میں استعمال کرتے ہیں (مثلاً، گاؤں کی کوئی میٹنگ ، باہری مسافر کے ٹھہرنے کی جگہ ، اس جگہ کو ہرکوئی بلاکسی عذر استعمال کرسکتاہے)؛ سوال یہ ہے کہ

    (۱) کیایہ سودی رقم کو اس دہلیزکے استعمال میں لگنے والے ایک ٹوائلیٹ /لٹیرین بنانے میں خرچ کرسکتے ہیں؟ (یہ ٹوائلیٹ کسی ایک بندے کے ذاتی استعمال نہیں رہے گا بلکہ ہر کوئی اسیاستعمال کرسکتاہے)

    (۲ ) کیا یہ سودی رقم کو کرنٹ اکاؤنٹ میں جو اکاؤنٹ رکھنے کا چارج بینک لگا تاہے اس میں استعمال کرسکتے ہیں؟

    (۳) اس اکاؤنٹ میں جو رقم ہے وہ عوام کے تعاون کا پیسہ ہے جو انہوں نے مسجد ، مکتب ، بیت المال اور گاؤں کے دیگر فنڈ جہاں انہوں نے تعاون کیا ہے،تو اس میں ملنے والی سودی رقم کوہم کس مصرف میں خرچ کرسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 601361

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:294-235/sd=4/1442

     (۱) سودی رقم کو ٹوائلیٹ بنانے میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔(۲) سودی رقم کو اکاوٴنٹ رکھنے کے چارج میں بھی صرف کرنا درست نہیں ہے ، چارج بینک کی حق الخدمت ہوتی ہے جس کا نفع اکاوٴنٹ ہولڈر کو ملتا ہے ۔ (۳) ایسی سودی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غرباء مساکین پر صرف کردینی چاہیے ۔

    أما اذا کان عند رجل مال خبیث فأما ان ملکہ بعقد فاسد أو حصل لہ بغیر عقد ولایمکنہ أن یردہ الی مالکہ ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلة الا أن یدفعہ الی الفقراء ولکن لا یرید بذلک الأجر والثواب ولکن یرید دفع المعصیة عن نفسہ ۔ ( بذل المجہود: ۳۷/۱، کتاب الطہارة، باب فرض الوضوء، سہارنپور)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند