معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 600325
میں ایک سرکاری ادارے میں ملازم ادرہ ہر ماہ میری تنحوا سے کچھ روپے کاٹ کر اپنے طرف سے کاروبار میں لگا دیتے ھیں جو میرے علم میں نہیں ہے ۔یہ جو ماہانہ کٹوتی ہے اس کو بندہ اپنی مرضی سے بڑا سکتا ہے اور جب مدت ملازمت پوری ہوجاتی ہے تو مدت ملازمت پوری ہوجاتی ہے تو ادارہ اس جمع شدہ رقم پہ اپنی طرف سے منافع دیتے ہیں جو ہر سال مختلف ہوتا ہے ہے جو بندہ اپنی مرضی سے یہ پیسے بڑھاتا ہے ہے نہ دارالفتاوی وہ دارالعلوم بنوریہ کی طرف سے وہ شک کی بنیاد میں انہوں نے سود میں شامل کیا ہے اور ہمارے پر ایک ہے جامعہ رحمانیہ انہوں نے بھی اس کو شک کی بنیاد سے سود میں شامل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جو ادارہ جبرن آپ سے کٹوتی کرتے ہیں وہ جائز ہے لیکن جو آپ اپنی مرضی سے کاٹتے ہو وہ شک کی بنیاد سے سود میں آتا ہے برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائے اور کمپیکٹ مطلب ہو تو ایک مضبوط اور مستحکم فتوہ چاہئے کہ آیا یہ سود ہے یا شک کی بنیاد میں سود ہے ۔
جواب نمبر: 600325
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 51-37/M=02/1442
ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ جوحصہ جبری طور پر کاٹ لیا جاتا ہے جس میں ملازم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور پھر اس پر کچھ اضافہ ادارے کی جانب سے ملتا ہے اور وہ وضع شدہ پیسہ مع اضافہ اس کے فنڈ میں جمع ہوتا رہتا ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملتا ہے تو وہ اضافہ (منافع) شرعاً سود نہیں ہے اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز و حلال ہے اور جو حصہ، ملازم اپنے اختیار سے کٹواتا ہے، اس پر جو اضافہ (منافع) ادارے کی جانب سے ملتا ہے اس اضافے کو لینے یا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند