• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 600208

    عنوان:

    سود کی رقم غربا ومساکین کی یا اُن کے بچے، بچیوں کی شادی میں لگانے کا حکم

    سوال:

    کیا سود کی رقم غرباء اور مساکین کی شادی میں یا ان کے بچے اور بچیوں کی شادی میں لگا سکتے ہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 600208

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:84-43/N=2/1442

     بینک کا سود کسی بھی غریب کو دے سکتے ہیں ، پھر وہ غریب اپنی جس ضرورت میں چاہے،استعمال کرے،خواہ اپنی یا اپنے بیٹا، بیٹی کی شادی میں استعمال کرے یا کسی اور ضرورت میں؛ البتہ کسی غریب کو یک مشت اتنی رقم دینا مکروہ ہے کہ وہ((تنہا اس رقم سے یا پہلے سے موجود رقم کے ساتھ مل کر ) صاحب نصاب ہوجائے، نیز جب غریب، صاحب نصاب ہوجائے تو دوبارہ غریب ہونے تک اُسے مزید سود کی رقم یا زکوة وغیرہ دینا بالکل جائز نہیں ہوتا؛ لہٰذا ان ۲/باتوں کا خیال رکھتے ہوئے غریب کو اُس کی یا اُس کے بچے، بچیوں کی شادی کی ضروریات کے لیے بینک کا سود دینے کی گنجائش ہوگی۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدقُ إذا تعذر الردُّ علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……، قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبةَ (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن، کتاب البیوع، أبواب بیوع الربا، باب الربا في دار الحرب بین المسلم والحربي، ۱۴:۳۷۲،ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیة، کراتشي)۔

    قال محمد فی الأصل: إذا أعطی من زکاتہ مأتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ، وفی الخانیة: أو یبقی دون المائتین، م : أو کان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولایکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال؛ فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثة ویکرہ إلخ (الفتاوی التاتار خانیة،کتاب الزکاة ، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع فیہ الزکاة، ۳: ۲۲۱، ۲۲۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند