• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 600085

    عنوان:

    مکان ے لیے بینک سے سودی قرض لینے کا حکم

    سوال:

    مسئلہ یہ ہے کہ ایک صاحب کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی خود کا مکان لے لیں تاکہ ان کا کرایہ بچ جائے لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ مکان خرید سکیں لہذا وہ بینک سے لون لیکر خریدنا چاہتے ہیں جس میں سود لازمی ہوگا ۔ ایسی صورت میں اسلامی شریعت کی روشنی میں انہیں کیا کرنا چاہیے ۔

    جواب نمبر: 600085

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:55-23/N=2/1442

     اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ اور حدیث پاک میں سود لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے، اور بینک سے لون (سودی قرض)لے کر مکان خریدنے میں بینک کو سود کے ساتھ قرضہ ادا کرنا ہوگا (جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں)؛ اس لیے بینک سے لون (سودی قرض) لے کر مکان خریدنا ہرگز جائز نہ ہوگا۔اور آپ کے پاس اگر اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ مکان خرید سکیں اور کوئی ایسا دوست وغیرہ بھی نہیں ہے جو آپ کو مکان کے لیے قرضہ حسنہ دے سکے تو آپ اپنی آمدنی سے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتے رہیں اور جب مکان یا پلاٹ کے بہ قدر پیسے جمع ہوجائیں تو مکان یا پلاٹ خرید لیں اور آیندہ جب انتظام ہوجائے تو پلاٹ پر مکان تعمیر کرلیں۔ اور قرض حسنہ یا ذاتی پیسوں کا نظم ہونے تک کرایہ کے مکان سے رہائش کی ضرورت پوری کرتے رہیں جیسا کہ بڑے شہروں میں بہت سے لوگ کرایہ کے مکان یا فلیٹ ہی سے رہائش کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا﴾ (سورة البقرة، رقم الآیة: ۲۷۵)۔

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ”لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“ (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸ - ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۹ - ۲۲۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”کل قرض جر نفعًا حرام“: أي: إذا کان مشروطًا، کما علم مما نقلہ عن البحر وعن الخلاصة (رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل في القرض، ۷: ۳۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ، فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض(إعلاء السنن،رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا، ۱۴:۵۳۳، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراتشی)۔

    الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲:۲۸۲) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند