• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 56839

    عنوان: مفتی صاحب! مجھے ایک کار خریدنی ہے لیکن میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ ا یک مشت میں خریدلوں۔ اگر بینک سے لینے کی کوئی جائز شکل ہو تو رہبری فرمائیں ۔ بینواتوجرو

    سوال: مفتی صاحب! مجھے ایک کار خریدنی ہے لیکن میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ ا یک مشت میں خریدلوں۔ اگر بینک سے لینے کی کوئی جائز شکل ہو تو رہبری فرمائیں ۔ بینواتوجرو

    جواب نمبر: 56839

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 74-74/Sd=2/1436-U بینک کے ذریعے گاڑی خریدنے کی جائز شکل یہ ہے کہ بینک پہلے کمپنی سے مثلاً ایک لاکھ میں گاڑی خریدلے، پھر بینک خریدار کو مثلاً ایک لاکھ پچیس ہزار میں یہ گاڑی فروخت کردے اورمجموعی رقم چاہے تو نقد وصول کرے یا قسطوں پر، یہ شکل بیع مرابحہ کے دائرے میں داخل ہوکر جائز ہوگی، اس صورت میں شرعاً یہ بھی جائز ہے کہ بینک ادھار یا قسطوں پر فروختگی کی صورت میں نقد کے مقابلے میں گاڑی کی زیادہ قیمت متعین کردے، حاصل یہ ہے کہ بینک اگر گاڑی کا اصل مالک بن کر خریدار کے ساتھ معاملہ کرے تو ادھار یا قسطوں پر فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ قیمت متعین کرنا سود کے دائرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح بینک کے ذریعے گاڑی خریدنے کی دوسری جائز صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بینک خریدار کو اپنا وکیل بنادے جو کمپنی سے گاڑی خریدکر بینک کے حوالے کردے، پھر بینک اس گاڑی کو خریدار کے ہاتھ نقد،ادھار یا قسطوں پر فروخت کردے۔ قال الحصکفی: المرابحة بیع ما ملکہ بما قام علیہ وبفضل، ثم باعہ مرابحة علی تلک القیمة، جاز (الدر المختار مع رد المحتار: ۷/۴۹-۵۰) قال الإمام الترمذي تحت حدیث: ”نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعة“ وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین فی بیعة أن یقول: أبیعک ہذا الثوبَ بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین ولا یفارقہ علی أحد البیعتین، فإذا فارقہ علی أحد منہما، فلا بأس بہ إذا کانت العقدة علی أحد منہما، (الجامع الترمذي، باب ما جاء في النہی عن بیعتین في بیعة، رقم: ۶۲۳۱) وقال السرخسي: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد، وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما، ولم یتفرقا، حتی قاطعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز (المبسوط للسرخسي: ۱۳/ ۸، دار المعرفة بیروت) کذا في امداد الفتاوی: ۳/۱۳۵-۱۳۶، کتاب البیوع،زکریا، دیوبند) ================= نوٹ: بینک یا کسی ثالث کے توسط سے گاڑی خریدنے کی جو دو صورتیں جواب میں لکھی گئی ہیں وہ درست اور صحیح ہیں جیسا کہ عبارات فقہیہ سے واضح ہے، مگر بینک سے اس طرح کا معاملہ ہوپانا عملاً دشوار ہے کیونکہ وہ اپنے لگے بندھے طریقہ پر لون دینے کے عادی ہیں جس سے معاملہ سودی ہوجاتا ہے جو کہ ناجائز ہے، پس جواب کے مطابق اگر بینک سے معاملہ کیا جائے تو اس کی تفصیل لکھ کر کہ کس طرح معاملہ ہوا ہے پھر دوبارہ حکم معلوم کرلیا جائے تاکہ سودی لین دین سے تحفظ رہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند