• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 5028

    عنوان:

    میں ایک تاجر ہوں (مال برآمد کرتا ہوں) ہم EPCH دہلی کے زیرانتظام منعقد ہونے والے سالانہ دست کاری کے میلہ میں شرکت کرتے ہیں۔ ہم اسٹال کا کرایہ EPCH کو دیتے ہیں، کسی سال ہم خود اس اسٹال کو استعمال کرتے ہیں اور کسی سال کسی اور ایکسپورٹر سے پریمیم (پیشگی اضافی رقم لے کر) اسے دے دیتے ہیں (یعنی اصل کرایہ مع پریمیم) میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ پریمیم حلال ہے؟ اگر یہ پریمیم حلال نہیں تو ہم اس رقم کو کہاں خرچ کریں۔

    سوال:

    میں ایک تاجر ہوں (مال برآمد کرتا ہوں) ہم EPCH دہلی کے زیرانتظام منعقد ہونے والے سالانہ دست کاری کے میلہ میں شرکت کرتے ہیں۔ ہم اسٹال کا کرایہ EPCH کو دیتے ہیں، کسی سال ہم خود اس اسٹال کو استعمال کرتے ہیں اور کسی سال کسی اور ایکسپورٹر سے پریمیم (پیشگی اضافی رقم لے کر) اسے دے دیتے ہیں (یعنی اصل کرایہ مع پریمیم) میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ پریمیم حلال ہے؟ اگر یہ پریمیم حلال نہیں تو ہم اس رقم کو کہاں خرچ کریں۔

    جواب نمبر: 5028

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 604/ د= 557/ د

     

    اصل کرایہ سے زاید رقم جو آپ نے کراہ دار ثانی سے لیا ہے وہ آپ کے لیے پاکیزہ آمدنی نہیں کہلائے گی، اس لیے اس زاید رقم کو صدقہ کردینا ہے۔ البتہ اگر آپ دکان میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کردیں مثلاً کاوٴنٹر بنادیں، فرض ٹھیک کرادیں، کسی بھی قسم کا خواہ تھوڑا ہی درستگی کا اضافہ کردیں تو زیائد رقم لینا بھی آپ کے لیے جائز ہوجائے گا۔ اور اسے اپنے استعمال میں لانا درست ہوگا۔ یا نقد روپئے بطور کرایہ اضافہ نہ کریں بلکہ روپئے سے ہٹکر کوئی دوسری چیز از قبیل سامان مثلاً اٹیچی، فریج، کوکرایہ میں شامل کردیں تو یہ اضافہ لینا آپ کے لیے درست ہوگا۔ قال في الدر ولہ السکنی بنفسہ وإسکان غیرہ بإجارة غیرھا وکذا کل ما لا یختلف بالمستعمل....... ولو آجر بأکثر تصدق إلا في مسئلتین إذا آجرھا بخلاف الجنس أو أصلح فیھا شیئًا قال الشامي وکذا إذا آجر مع ما استاجر شیئًا من مالہ بجوز أن تعقد علیہ الإجارة فإنہ تطیب لہ الزیادة․ (20/5، شامي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند