معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 43919
جواب نمبر: 4391901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 193-154/H=3/1434 (۱) نہیں کراسکتے۔ (۲) نہیں۔ (۳) کن کن صورتوں میں بینک قرض دے گا ان کی تفصیل لکھ کر معلوم کریں۔ (۴) بینک میں جمع کردہ رقم پر جو زائد رقم ملے گی وہ سود ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ بینک سے نکال کر وبال سے بچنے کی نیت کرکے غرباء فقراء مساکین محتاجوں کو بلانیت ثواب دیدی جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرا سوال انکم ٹیکس اور سود کے متعلق ہے۔ کیا میں لائف انشورنس پالیسی اس واضح نیت کے ساتھ لے سکتا ہوں کہ میں اس کے سود کا پیسہ استعمال نہیں کروں گا جو کہ مجھے پالیسی کے پورا ہونے کے بعد ملے گا۔ لائف انشورنس پالیسی لینے کا ایک ہی مقصد ہے وہ انکم ٹیکس سے پیسہ کو پچانا ہے۔ (۲) اگر پالیسی لینے کے بعد پیسہ پھر بھی انکم ٹیکس میں جاتاہے تو کیا میں اس سود کا پیسہ استعمال کرسکتا ہوں جو کہ مجھے لائف انشورنس پالیسی کے پورا ہونے کے بعد ملے گا انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے؟
666 مناظرمیں ایک آئی ٹی پروفیشنل ہوں اور بطور ڈیٹا بیس ایڈمنسٹریٹر کے کام کرتاہوں۔ اگر میں کسی بینک میں نوکری کروں گا تو میرا کام تمام ڈیٹا اور معلومات کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ بینک کے تمام ٹرانز ایکشن(کاروائی) ایک کمپیوٹر میں جمع ہوتے ہیں اور مجھے کمپیوٹر میں اس ڈیٹا کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اس ڈیٹا کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس کودیکھنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ بینک کے ذریعہ سے لین دین اور کاروائی یا اس سے مشابہ کوئی اور معاملہ میں میں کسی بھی طرح سے شامل نہیں ہوتا ہوں۔یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اگر اس وقت میرے پاس کوئی اور نوکری نہیں ہے تو کیا میرے لیے یہ نوکری جائز ہے؟
1110 مناظرسود کی شرح کم ہو تو قرض لینا كیسا ہے؟
2418 مناظرمیں اپنے ایک دوست کی ملازمت کے بارے میں جاننا چاہتاہوں۔ اس نے سرکاری اور غیر سرکاری آفس میں ملازمت کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن سوئے اتفاق کہ اسے کہیں ملازمت نہیں ملی۔ با لأخر اس نے ایک سودی بینک میں ملازمت کی درخواست دی اور اس میں اس کا تقرر ہوگیا۔ برا ہ کرم، بتائیں کہ اس کی یہ ملازمت جائز ہے یانہیں؟ چونکہ کمائی کے لیے اس کے پاس کوئی دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
1332 مناظرانکم ٹیکس میں گئی رقم کو سود سے وصول کرنا؟
3392 مناظرہمارے علاقہ میں کمیشن پر اس طرح کاروبار کرتے ہیں کہ سیٹھ لوگ کشتی والوں کو کشتی کے لیے جال دلاتے ہیں اور کشتی کے لیے پٹرول وغیرہ دلاتے ہیں کشتی کا کوئی خرچہ ہوتا ہے تو سیٹھ لوگ دیتے ہیں مگر ادھار پر یعنی قرض دیتے ہیں۔ اپنا قرض تھوڑا تھوڑا کرکے کشتی والوں سے وصول کرتے ہیں چاہے سال لگے۔ لیکن کشتی والے اس بات کے پابند بنائے جاتے ہیں کہ کشتی والے اپنا سارا مال سیٹھ کو دیتے ہیں، فی کلو 23روپیہ کے حساب سے جب کہ اس مال کی مارکیٹ کی قیمت 30روپیہ فی کلو ہے۔ کشتی والے یہ مال مارکیٹ میں نہیں بھیج سکتے کیوں کہ کشتی والے سیٹھ کے قرض دار ہیں جب تک قرض نہیں دیتے چاہیے سیٹھ لوگ اس کے پیچھے لاکھوں کا پیسہ کمالیں۔کشتی والے چاہے دو ہزار کلو مال لائیں یا دو سو کلو سارا مال سیٹھ کو دینے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کا ہمارے علاقہ میں ایک کاروبار چل رہا ہے تقریباً اسی فیصد کشتی والے سیٹھوں کے قرض دار ہیں کیوں کہ اکثر کشتی والوں کے پاس جال خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تووہ ان سیٹھوں سے پیسہ کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سود ہے یا کاروبار میں یہ طے کرنا صحیح ہے؟
1658 مناظر