معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 35773
جواب نمبر: 3577331-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 43=43-1/1433 سرکاری بینکوں سے حاصل شدہ سودی رقم، انکم ٹیکس میں دینے کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں بطور لائف انشورنس ایڈوائزرکے کام کرتا ہوں۔میں لائف انشورنس، ایف ڈی آر ڈی، اندرا وکاس پترا کے بارے میں فتوی لینا چاہتا ہوں۔ در اصل میرے کچھ موٴکل مسلمان ہیں جن کا کہنا ہے کہ لائف انشورنس ، ایف ڈی آر ڈی وغیرہ حرام ہیں ،کیوں کہ ہمیں پالیسی کے پورا ہونے کے بعدبیاج ملتا ہے۔ میں نے ایک عالم سے سنا ہے جنھوں نے کہا کہ تمام مسلک (اہل سنت والجماعت، دارالعلوم دیوبند اورجماعت اسلامی) نے اس مسئلہ کو جائز قرار دیا ہے کہ جب ایک غیر مسلم بینک یا کمپنیکسیکواس کی سرمایہ کاری پر منافع دیتی ہے غیر مسلم ملک میں تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق جائز ہے ۔ اور اس حقیقت کو جب میں نے اپنے موٴکل سے بتایا تواس کے بعد انھوں نے لائف انشورنس ، ایف ڈی آر ڈی، اندرا وکاس پترا وغیرہ کی موافقت میں فتوی پوچھا ہے۔ برائے کرم آپ مجھے اس حقیقت کے بارے میں ایک فتوی دے دیں۔ اس کے بارے میں میرے کچھ سوالات ہیں جو کہدرج ذیل ہیں: (۱) کیا کوئی مسلمان مستقبل کے منافع کے لیے لائف انشورنس پالیسی یا ایف ڈی آر ڈی، اندرا وکاس پتراوغیرہ خرید سکتا ہے؟ (۲) اگر کوئی انکم ٹیکس بچانے کے لیے کوئی پالیسی خریدتا ہے اور اپنے پیسہ کو حکومت کی نظر میں حلالپیسوں میں تبدیل کرلیتا ہے تو کیایہ جائز ہے؟ (۳) کیا سرمایہ کاری پر جو منافع پالیسی کے پورا ہونے کے بعد حاصل کیا گیا ہے وہ جائز ہے؟
672 مناظرمیں پاکستان میں ایک سرکاری محکمہ میں کام کررہاہوں، ہرماہ میر ی تنخواہ میں سے کچھ رقم گروپ ٹرم انشورنس اسکیم کے لیے کاٹ لی جاتی ہے، اس کٹوٹی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اگر کوئی ملازم ملازمت کے دوران مرجائے یا کسی حادثہ کی وجہ سے اپاہج ہوجائے تو وہ اس کے نامزد افراد خانہ کو انشورنس کمپنی ایک بڑی رقم دیتی ہے، یہ اسکیم اختیاری ہے اور صرف ملازمت کی مدت تک ہی محدود ہے۔براہ کرم، بتائیں کہ کیا یہ اسکیم اسلامی قانون کی رو سے جائزہے یانہیں؟
312 مناظرہمارے
علاقے میں جب کسی کے گھر میں آٹا یا گندم یا چائے کی پتی ختم ہوجات یہے تو وہ
پڑوسی میں سے کسی کے گھر جاکر ان سے ادھار مانگ کر لے آتا ہے، بعد میں جب وہ خرید
لیتا ہے تو جتنا ادھار لیا تھا، مثلاً اگر ایک جگ بھرا ہوا آٹا لیا تھا تو ایک جگ
بھرا ہوا آٹے کا واپس کردیتا ہے، یا اگر ایک پیالی چائے کی پتی ادھار لی تھی تو وہ
ایک پیالی چائے کی پتی واپس کردیتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ میں نے حضرت مولانا محمد
یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تعالی کی کتاب [آپ کے مسائل اور ان کا حل] جلد
نمبر ۶
میں یہ پڑھا تھا کہ دو ہم جنس اشیاء کا تبادلہ ہاتھ در ہاتھ اور یکساں وزن کے ساتھ
ہونا چاہیے نہیں تو سود ہوگا۔ اب اب مسئلہ میں بھی ایک تو ہاتھ در ہاتھ نہیں ہے
اور دوسرے وزن کرکے نہیں ہے بلکہ کسی چیز میں ماپ کردیتے ہیں جس میں کمی بیشی
ہوسکتی ہے، اگر ہمارے لیے دینے کا مذکورہ طریقہ غلط ہے تو مہربانی فرماکر صحیح
طریقہ بتادیں تاکہ کوئی خالی ہاتھ بھی نہ جائے اور ہم گنہ گار بھی نہ ہوں۔