• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 31307

    عنوان: سرکاری بینک سے ملی ہوئی سود ی رقم کو مسجد کے کسی مقدمہ کے اضافی خرچ (رشوت) میں استعمال کر نا

    سوال: سرکاری بینک سے ملی ہوئی سود ی رقم کو مسجد کے کسی مقدمہ کے اضافی خرچ (رشوت) میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ حضرت تھانوی صاحب اور مفتی کفایت اللہ صاحب کے اختلافات دیکھ کر تھک چکاہوں۔ براہ کرم، راحج قو ل کو دلیل کے ساتھ تعین کریں۔

    جواب نمبر: 31307

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 515=449-4/1432 مال حرام کے دو مصرف فقہائے کرام نے بتائے ہیں: یہ کہ مال حرام جہاں سے آیا ہے وہیں واپس کردیا جائے لیکن اس اصول کو اختیار کرنے میں ہماری سودی رقم کو اغیار اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں، اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صَرف کی جائے یعنی مال حرام کے وبال سے بچنے کے لیے بلانیت ثواب بہت زیادہ غریب ومحتاج، پریشان حال مقروض یا لُٹے پِٹے لوگوں پر تصدق کردی جائے۔ مقدمہ میں، رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرنا جائز نہیں، راجح قول یہی ہے کیونکہ مال حرام کا غریبوں پر تصدق واجب ہے، تصدق میں کسی غریب کو دے کر اسے مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، رفاہِ عام میں خرچ کرنے کی صورت میں مالک بنانے کی صورت نہیں پائی جاتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند