معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 29271
جواب نمبر: 29271
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 228=215-2/1432
بینک سے ملی ہوئی سود کی رقم کو مکان کے کرایے یا دیگر اخراجات میں استعمال کرنا جائز نہیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سود کو حرام قرار دیا ہے: ﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (القرآن) سود کے پیسے بلانیت ثواب فقراء وغرباء کو وبال سے بچنے کی نیت سے دیدیں۔
(۲) سود کی رقم حرام ہے اور حرام مال مدرسہ میں دینا جائز نہیں، اس لیے سود کی رقم مدرسہ میں نہیں دینا چاہیے، بلکہ غرباء وفقراء وغیرہ کو دیدیں: قال تاج الشریعة: أما لو أنفق في ذلک مالاً خبیثًا أو مالاً سببہ الخبث والطیب فیکرہ (شامی)
(۳) سود کی رقم سے تجارت کرنا یا شیئر مارکیٹ میں نفع حاصل کرنے کے لیے لگانا درست نہیں ہے، اگر کسی نے سود کی رقم سے تجارت کرہی لیا یا حلال شیئر میں نفع حاصل کرنے کے لیے لگاہی دیا تو اس سے جو نفع حاصل ہو اس کا استعمال کرنا درست ہے؛ کیوں کہ وہ نفع حلال ہے، البتہ جتنی مقدار سود کی تھی اس رقم کو غرباء وغیرہ پر صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اگر بزنس میں نقصان ہوجائے، پھر بھی سود کی رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہے، بزنس میں نقصان ہوجانے سے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند