معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 27547
جواب نمبر: 27547
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1861=1370-12/1431
اول تو ایسا کوئی معاملہ کرنا جس میں سود ملنایا دینا پایا جائے ممنوع ہے، پھر بھی اگر بینک میں پیسہ جمع ہونے کی وجہ سے کچھ سود کی رقم اکاوٴنٹ میں آگئی تو اسے نکال کر کسی غریب کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
کار خریدنے کا معاملہ بینک سے کرنا جس میں سود دینا پڑے ناجائز وحرام ہے، سودی معاملہ کرنے اور سود دینے کا گناہ ہوگا، ہاں بینک اگر خود کار خریدکر انٹرسٹ کے نام سے کچھ رقم بڑھاکر مجموعی رقم کے بدلے آپ کے بدست فروخت کردے تو اس طرح خریداری کرنا جائز ہے شرط یہی ہے کہ بینک کار خریدکر قبضہ کرلے پھر آپ کے بدست فروخت کرے۔ اوپر کی تفصیل سے معلوم ہواکہ اپنے اختیار سے ایسے معاملات کرنا کہ جس میں ایک طرف سے ملنے والا سود لے کر دوسری طرف دیدیا جائے درست نہیں، سودی معاملات کرنے کا گناہ اور بالارادہ کرنے کی جسارت کا وبال ہوگا۔
البتہ ایسی کوئی صورت پیش آجائے کہ بلاارادہ اکاوٴنٹ میں سود کے پیسے آگئے اور دوسری طرف کی مجبوری کی وجہ سے سود دینا بھی پڑرہا ہے تو ایسی مجبور کی صورت میں اکاوٴنٹ میں پڑی سود کی رقم دوسری جانب واجب الاداء سود میں دے سکتے ہیں، سود کے لینے دینے کی حرمت قرآن میں منصوص ہے، اس لیے بہت احتیاط اور اجتناب کی ضرورت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند