• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 19371

    عنوان:

    پروویڈنٹ فنڈ کا کیا حکم ہے؟

    سوال:

    پروویڈنٹ فنڈ میں تین حصے ہوتے ہیں۔(۱)وہ حصہ جو ملازم کی تنخواہ سے کٹتا ہے۔ (۲)وہ حصہ جو کمپنی اپنی طرف سے ڈالتی ہے۔ (۳)منافع/سود/جو پھر ان سب پر لگتا ہے اور وہ بھی اس میں اضافہ کے طور پر شامل ہوجاتا ہے۔ اب اگر ایک ملازم تیسرے حصہ کو نہیں لیتا تو ایک طرح سے سود سے بچ گیا مگر جو دوسرے حصے ہیں یعنی کہ کمپنی کی طرف سے ڈالا ہوا اگر کمپنی وہ پیسے ان ذرائع سے لیتی ہے مثلاً کہیں بینک میں ڈپوزٹ کرا دیتی ہے اور اس پر سودی منافع لیتی رہتی ہے تو کیا یہ دوسرا حصہ کمپنی کی طرف سے ڈلوانا ملازم کے لیے جائز ہے؟

    جواب نمبر: 19371

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 187=164-2/1431

     

    فنڈ کا جو حصہ کہ لازمی طور پر کٹتا ہے ملازم کا اس پر بس نہیں نیز ملازم کے قبضہ میں بھی نہیں آتا، اس فنڈ پر جو حصہ کمپنی اپنی طرف سے ڈالتی ہے، اس کا لینا بھی ملازم کے لیے جائز ہے اوراس رقم کو کمپنی کسی بینک وغیرہ میں رکھ کر جو اضافہ کرتی ہے خواہ بطور سود کے ہو اس کا بھی لینا ملازم کے لیے جائز ہے، کل رقم حکومت (کمپنی) کی طرف سے انعام ہے۔

    اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ کمپنی ناجائز طریقہ پر رقم بڑھاتی ہے تو کمپنی کا یہ طریقہ غلط ، موجب گناہ ہے، ملازم کو معلوم ہے تو اس کا احتیاط کرلینا بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند