معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 175824
جواب نمبر: 175824
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:410-327/N=5/1441
رہائش تو واقعی انسان کی ضرورت ہے؛ لیکن اس کے لیے ذاتی مکان ضروری نہیں، کرایہ کے مکان سے بھی رہائش کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ اور بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ کرایہ کے مکانات میں زندگی گذارہے ہیں؛ بلکہ بہت سے لوگ پشتہا پشت سے کرایہ کے مکانات ہی میں جی رہے ہیں ؛ لہٰذا ذاتی مکان کے لیے بینک یا کسی بھی سودی ادارے سے سودی قرض لینا جائز نہ ہوگا۔ آدمی کو چاہیے کہ کرایہ کے مکان سے رہائش کی ضرورت پوری کرتا رہے اور آمدنی کا کچھ حصہ ذاتی مکان کے لیے پس انداز کرتا رہے اور جب ذاتی مکان کے لیے مناسب رقم جمع ہوجائے تو ذاتی مکان خرید لیا جائے۔ اور آدمی ہر جگہ احکام اسلام کا پابند ہوتا ہے، ملک بدلنے سے احکام نہیں بدلتے؛ لبتہ کسی ملک کے خاص قوانین کی وجہ سے بعض احکام میں جزوی تخفیف ہوجاتی ہے۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند