• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 174848

    عنوان: ایك لاكھ سونا ڈیڑھ لاكھ میں فروخت كرنا؟

    سوال: کسٹمر مجھے پیسوں کی ضرورت ہے کاروبار یا کوئی اور چیز خریدنے کیلئے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ہم آپکو سونا یا موبائل وغیرہ دیتے ہیں جو کہ مثلاً ایک لاکھ روپے کا سونا ہم اسے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کرتے ہیں جس کی ماہانہ قسط طے کر لی جاتی ہے اور اس کو مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کرلیں لہذا شرعی نقطہ نظر سے تفصیلی فتوی جاری کریں۔

    جواب نمبر: 174848

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:301-258/sn=4/1441

    اگر آپ مارکیٹ سے ایک لاکھ روپیے کا سونا یا کوئی سامان خود خرید کر کسی کے ہاتھ زائد قیمت (مثلا ڈیڑھ لاکھ یا کم وبیش) پر ادھار فروخت کردیتے ہیں اور مجلس عقد میں ہی خریدار کو سونے وغیرہ پر مکمل قبضہ دے دیتے ہیں تو شرعا ایسا کرنا جائز ہے اور خریدار اس سونے کو مارکیٹ میں فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ ؛ کیونکہ عاقدین باہمی تراضی سے کوئی بھی قیمت مبیع کا طے کرسکتے ہیں؛ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا اچھا نہیں ہے ۔

    (و) فسد (شراء ما باع بنفسہ أو بوکیلہ) من الذی اشتراہ ولو حکما کوارثہ (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) کل (الثمن) الأول.... (قولہ وفسد شراء ما باع إلخ) أی لو باع شیئا وقبضہ المشتری ولم یقبض البائع الثمن فاشتراہ بأقل من الثمن الأول لا یجوز زیلعی: أی سواء کان الثمن الأول حالا أو مؤجلا ہدایة، .... (قولہ من الذی اشتراہ) متعلق بشراء، وخرج بہ ما لو باعہ المشتری لرجل أو وہبہ لہ أو أوصی لہ بہ ثم اشتراہ البائع الأول من ذلک الرجل فإنہ یجوز؛ لأن اختلاف سبب الملک کاختلاف العین زیلعی، (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 7/ 267،باب البیع الفاسد، ط: زکریا، دیوبند) والثمن والفرق بین الثمن والقیمة أن الثمن ما تراضی علیہ سواء زاد علی القیمة أو نقص إلخ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 7/ 122،کتاب البیوع،ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند