• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 174166

    عنوان: انشورنس کی مد میں ملنے والے پیسے کا حکم

    سوال: ایک آدمی کا ایکسیڈنٹ ہوا جس سے اس کا انتقال ہوا۔ جس کمپنی میں وہ ملازمت کرتا تھا انہوں نے پیسے دیئے اور جس ڈرائیور سے ہوا اس نے بھی کچھ پیسے دئے ان کے گھر والوں کو۔ اور اس مرحوم نے انشورنس بھی کروایاتھا اپنا ۔ (1)اب جو اس انشورنس کا پیسہ ملے گا اس کا کیا جائے؟؟ ۔ اس مرحوم کے چھوٹے بچے ہیں نا بالغ ہیں اب اس کا ماموں چاھتا ہے کہ ان سب پیسوں کو بمع انشورنس پیسوں جمع کرکے کوئی گھر خریدے اور اس کا کرایہ بچوں کو دیا جائے ۔ اور انشورنس پیسہ چونکہ حرام ہے تو وہ کہتا ہے کرایہ میں سے کچھ پیسے کسی غریب کو دیا جائے جس کے ذریعے یہ حرام پیسہ ختم ہوجائے ۔ (2) کیا یہ صورت جائز ہے؟ (3)اگر نہیں تو کس طریقے سے ان بچوں کی مدد کی جائے اس انشورنس کا کیا کیا جائے ؟ (4) اگر یتیم بچوں کے مال سے تجارت کیا جائے تاکہ وہ مال ضائع نہ ہو یتیم بچوں کو فائدہ ہو تو کیسے اس مال کو تجارت میں لگا یا جائے منافع کو کس طرح بچوں میں تقسیم کیا جائے ؟ جزاکم اللہ

    جواب نمبر: 174166

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:147-18T/N=3/1441

    (۱): انشورنس شریعت میں حرام وناجائز ہے؛ کیوں کہ انشورنس میں سود اور قمار (جوا) دونوں پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں قطعی طور پر حرام ہیں۔ اور اگر کسی نے لا علمی میں انشورنس کرایا ہوا تھا تو مدت کی تکمیل پر یا اس سے پہلے حادثہ وفات پر انشورنس کے نام پر ملنے والی ساری رقم حلال وجائز نہ ہوگی؛ بلکہ انشورنس ہولڈر نے مختلف اقساط میں جو اصل پیسہ جمع کیا ہو، صرف وہی حلال وجائز ہوگا ، اور ما بقیہ پیسہ بلانیت ثواب غربا ومساکین کو دیدینا ضروری ہوگا۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری، وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (۲): انشورنس کا سارا پیسہ مرحوم کی اولاد وغیرہ کے لیے مکان کی خریدنا جائز نہ ہوگا؛ بلکہ مکان یا کسی بھی سامان وغیرہ کی خریداری میں صرف حلال وجائز پیسہ لگایا جاسکتا ہے۔

    (۳، ۴): انشورنس کی مد کا جائز پیسہ مرحوم کا ترکہ ہوکر حسب شرع مرحوم کے جملہ وارثین میں تقسیم ہوگا، پھر بچوں کا شرعی ولی (سرپرست)ان کے حصوں کا پیسہ اپنی تحویل میں رکھے گا اور حسب ضرورت بچوں پر خرچ کرتا رہے گا۔ اور اگر ان پیسوں سے کوئی مناسب اور قابل اطمینان کاروبار کیا جاسکتا ہو تواہل تجربہ سے مشورے کے بعد اس پر عمل کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند