• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 170228

    عنوان: اگر كوئی بینك سے قرض لے كر لندن سے انڈیا آگیا تو اس لون كا كیا حكم ہے؟

    سوال: میرا ایک دوست لندن میں رہ کر آیا ہے، وہ وہاں اسٹوڈینٹ ویزا پر گیا تھا اور بڑی پریشانی ہوئی ملازمت ملنے میں اور جتنا پیسہ کماتا ویزا رینیول (تجدید ویزا) میں چلا جاتا، اور اس وقت اسٹوڈینٹ ویزا کے ضابطے بدلنے سے اس کو کافی پیسہ خرچ پڑا ، لندن میں اس وقت اسٹوڈینٹ کے لیے ضابطہ اتنا سخت نہیں تھا ، اس وجہ سے وہ وہاں گیا تھا، اور اس کے وہاں جانے کے بعد حالات بالکل بدل گئے اور اسٹوڈینٹ کے ضابطے بھی سخت ہوگئے۔ میرے دوست کو لگا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہواہے اور اس نے طے کیا کہ وہ واپس انڈیا آئے گا اور آتے وقت وہاں کے بینک اور کریڈٹ کارڈ کمپنیوں سے لون لیا واپس نہ کرنے کی نیت سے کیوں کہ وہ اپنا پیسہ اور وقت گذارا مشکل حالات سے اس کی بھرپائی بول کر پیسے لے آئے، ابھی کچھ آٹھ سال گذر گئے ہیں، اسے لگتاہے کہ اس نے غلط کیا اور ابھی پچھتا رہاہے ، دقت یہ ہے کہ ابھی اس کو پتا نہیں کہ اس کا لون معاف ہوا کہ نہیں ، کئی بار باہر کے مماک میں لون ادا نہ کرنے پر کچھ سال بعد لون معاف یا منہا کردیا جاتاہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بینک اور کریڈٹ کارڈ والوں نے یہ لون کسی اور کمپنی کو وصول کرنے دیا ہو اور پھر اسی طرح کئی کمپنی یا ایجنٹ کو یہ کام سونپا گیا ہوگا اور اسے نہیں معلوم سود جوڑ کر کس کو کتنا دینا ہے، اگر وہ رابطہ کرتابھی تو ایک اور پریشانی یہ ہوسکتی ہے کہ اس کو پتا چل جائے گا کہ یہ جناب انڈیا میں ہے، اور گھرتک پہنچ کر پریشان کرنے کی نوب آسکتی ہے، ان پیسوں سے اس نے دو مکان لیے تھے ، کچھ پیسے ہیں اور کچھ خرچ ہوگئے ہیں ، اب یہ جاننا چاہتاہے کہ کیا وہ بینک والوں سے رابطہ کرے اور اس کو پیسہ ادا کرے یا کوئی اور صورت ہوسکتی ہے اس مسئلہ کی تو مہربانی ہوگی نصیحت فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 170228

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1248-179T/B=1/1441

    بینک سے لون لینا درست نہیں؛ کیوں کہ سود کے ساتھ واپس کرنا پڑتا ہے؛ لیکن اگر آپ نے مجبوری میں لون لے لیا تھا پھر آپ لندن سے انڈیا چلے آئے پھر بھی آپ کے ذمہ لازم ہے کہ آپ جلد از جلد بینک والوں سے رابطہ کرکے لون واپس کریں اور اگر مکمل کوشش کے باوجود بینک کو لون واپس کرنے کی کوئی شکل نہیں بن پاتی تو لون کی رقم فقراء و غرباء پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ قال اللہ تعالی: أحل اللہ البیع وحرّم الرّبوا ، (البقرة: ۲۷۵) وفي الأشباہ: کلّ قرض جرّ نفعاً حرامٌ ۔ (الدر المختار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة ، ۷/۳۹۵، زکریا دیوبند) ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم ، وإلاّ تصدقوا بہا ؛ لأنّ سبیل الکسب الخبیث التصدّق إذا تعذّر الرّد علی صاحبہ ۔ (رد المحتار ، کتاب الحظر والإباحة ، باب الاستبراء وغیرہ ، ۹/۵۵۳، زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند