معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 166572
جواب نمبر: 166572
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:220-281/N=4/1440
کسی فائنانس کمپنی کے توسط سے قسطوں پر کوئی سامان خریدنے میں فائنانس کمپنی خریدار کی جانب سے فروخت کنندہ کمپنی کو نقد جو رقم ادا کرتی ہے ، وہ در حقیقت خریدار کے حق میں قرض ہوتی ہے، یعنی: فائنانس کمپنی نے خریدار کی جانب سے وہ رقم ادا کرکے خریدار کو قرض دیا، پس اب اگر فائنانس کمپنی خریدار سے صرف ادا کردہ رقم وصول کرے تو یہ قرضہ حسنہ (غیر سودی قرض) ہے۔ اور اگر اس پر اضافہ بھی وصول کرے تو یہ سودی قرض ہے اگرچہ خریدار کے حق میں وہ سامان مارکیٹ ویلیو سے زائد کا نہ پڑے۔ اور صورت مسئولہ میں فائنانس کمپنیاں خریداروں کی جانب سے جو رقم فروخت کنندہ کمپنی کو ادا کرتی ہیں، وہ خریداروں سے اصل رقم کے ساتھ اضافہ بھی وصول کرتی ہیں؛ ورنہ فائنانس کرنے پر انھیں کیا فائدہ ہوگا؛ بلکہ بلاوجہ ان کا پیسہ لوگوں کے قرض میں پھنسے گا ؛اس لیے یہ معاملہ بھی سودی قرض کی بنا پر ناجائز ہے۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند