معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 165443
جواب نمبر: 165443
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:36-63/N=2/1440
اگر پیسوں کی حفاظت کا آپ کے پاس بینک اکاوٴنٹ کے علاوہ کوئی دوسرا مناسب اور قابل اطمینان آپشن نہیں ہے تو آپ بہ غرض حفاظت بینک میں پیسے رکھ سکتے ہیں؛ البتہ بینک آپ کی جمع شدہ رقم پر حسب اصول جو کچھ انٹرسٹ دے، وہ آپ بینک سے نکال کر بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں، اپنے استعمال میں نہ لائیں یا اگر بینک سرکاری ہو تو سرکار کے ان ٹیکسس میں بھی بھرسکتے ہیں جو شریعت کی نظر میں غیر واجبی ہیں، جیسے: انکم ٹیکس یا سیل ٹیکس وغیرہ۔
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ(إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ،…،زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند