عنوان: مالدار کو بینک کا سود لے کر استعمال کرنا
سوال: میں ایک کمپنی میں پرائیویٹ ملازمت کرتا ہوں جس کے مالک بھی الحمد للہ مسلم ہیں۔ میری تنخواہ سے مکان کا کرایہ ، گھر کا راشن اور بچوں کے اسکول کی فیس کی ضروریات تو آسانی سے پوری ہو جاتی ہیں، بچت بہت کم ہو پاتی ہے۔ میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں اور اپنا مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس صرف پچاس ہزار روپئے ہیں۔ اگر بینک سے لون کرواوٴں تو وہاں انٹریسٹ دینا پڑے گا اور نہ ہی میرے پاس گروی رکھنے کے لئے کوئی پراپرٹی یا سونا ہے۔ کوئی ادھار اتنی بڑی رقم نہیں دیتا ہے۔ میرے دفتر کے پاس جو مالک ہیں وہ ہر سال کئی لاکھ روپئے انٹریسٹ کا پیسہ امداد کرتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اسے ان کے انٹریسٹ کا پیسہ امداد لے کر گھر لے سکتا ہوں؟ میرا ارادہ اس پیسے کو رکھنے کا نہیں ہے صرف مکان لے کر اس پیسے کو ہر مہینے آسان قسطوں پر کسی غریب کو دے دیا کروں گا۔ کیا اس طرح سے میرے دفتر کے مالک کے سر سے انٹریسٹ ادا ہو جائے گا؟ اور کیا مجھے اس طرح کا پیسہ لے کر اپنی ضروریات پوری کرکے آسان قسطوں میں ضرورت مندوں کو دینا جائز ہوگا؟
براہ کرم، قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے بتائیں۔ جزاک اللہ خیر
جواب نمبر: 16307001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1210-1073/H=10/1439
بینک سے حاصل شدہ سود کا حکم یہ ہے کہ وہاں سے نکال کر وبال سے بچنے کی نیت کرکے غرباء فقراء مساکین محتاجوں کو بلا نیت ثواب دیدیا جائے آپ نے جو اپنے حالات لکھے ہیں ان کے پیش نظر تو ثابت نہیں ہوتا کہ آپ اُس (سودی رقم ) کے مصرف ہیں پس آپ کے لئے وہ سود لینا جائز نہیں خواہ اس نیت سے لیں کہ اتنی رقم بعد میں غریبوں کو دیدیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند