عنوان: بہت سے علمائے یورپ گھر لینے كے لیے سودی قرض كی اجازت دے رہے ہیں، كیا یہ صحیح ہے؟
سوال: حضرت، بہت سارے علماء یورپ میں فتوی دے رہے ہیں کہ لوگوں کو مجبوری کی حالت میں اجازت ہے کہ وہ سود پر گھر لیں۔ میرے حالات ایسے ہیں کہ ہم لوگ صحیح گھر میں رہ رہے ہیں۔ میری الحمد للہ دو بیٹیاں ہیں۔ شوہر کام کرتے ہیں۔ گھر کا کرایہ اتنا ہے کہ بالکل تنگ ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم سود میں پڑنا نہیں چاہتے۔ آنے والے سالوں میں اِدھر ہالینڈ میں اور زیاد کرایے بڑھ جائیں گے۔
تو میرا سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ ہم سود پر گھر لے سکتے ہیں؟ یابہتر ہے کہ میں بھی کام کروں اور پھر ڈبل آمدنی کی وجہ سے ہم کرایہ بآسانی دے سکیں گے۔ یا پھر سود پر گھر لے کر ساتھ میں میں بھی کام کروں اور جلد سے جلد سود کو ختم کردیں (جس بینک سے قرض لیا)۔
آپ کی بہت مہربانی ہوگی ۔
جواب نمبر: 16031701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:887-713/sd=7/1439
سودی قرض لینا ناجائز و حرام ہے ، احادیث میں سودی لین دین پر سخت وعیدیں آئی ہیں، گھر کے لیے بھی سودی لون لینا جائز نہیں ہے ،جو علما گھر خریدنے کے لیے لون کی اجازت دے رہے ہیں، ان کے فتاوی منسلک کیے جائیں، صورت مسئولہ میں اگر آپ لوگ صحیح مکان میں کرایہ پر رہ رہے ہیں،تو گھر خریدنے کے لیے سودی لون نہ لیں، خواہ تھوڑی تنگی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے ؛ البتہ گھر میں رہتے ہوئے آپ بھی کوئی ذریعہ آمدنی اختیار کرسکتی ہیں ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ؛ لیکن سودی قرض سے بچنا ضروری ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند