• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 160056

    عنوان: كیا سودی لون لینا جائز ہے؟

    سوال: زید اور بکر دونوں اچھے دوست ہیں۔ زید کسی وجہ سے بہت زیادہ مالی پریشان کا شکار ہوگیا ہے۔ بکر کی حالت تھوڑی اچھی ہے لیکن ابھی وہ اس حال میں نہیں کہ وہ زید کی کوئی مدد کرسکے۔ بکر کے پاس ایک کریڈیٹ کارڈ ہے جس پر بینک سے لون لینے کی گنجائش ہے۔ زید کا کھانا ہے کہ بکر کریڈیٹ کارڈ سے لون لے کر اس کو دیدے، وہ اس کی قسطیں خود بھرے گا، جیسے ہی حالات صحیح ہوتے ہیں وہ پورا لون ایک ساتھ واپس کردے گا، لیکن راضی نہیں ہورہا ہے۔ بکر کا کہنا ہے کہ وہ لون لے کر سود کے گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا، جب کہ زید کا کہنا ہے کہ وہ صرف ذریعہ بن رہا ہے اس کی ذمہ داری زید پر ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ذمہ دار بکر ہوگا یا زید؟

    جواب نمبر: 160056

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:834-154T/sn=8/1439

    سود پر مبنی لون لینا شرعاً جائز نہیں ہے الّا یہ کہ شدید ضرورت پیش آجائے مثلاً فاقہ کی نوبت آجائے اور اپنی ملکیت میں قابل فروخت کوئی ایسی چیز نہ ہو جسے فروخت کرکے ضرورت پوری کی جائے، صورتِ مسئولہ میں زید کو کس درجہ پریشانی ہے وہ سوال سے واضح نہیں ہے، اگر اس طرح کی کوئی شدید ضرورت نہیں ہے تو اس کے لیے بکر کے ذریعہ بھی لون لینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی بکر کے لیے یہ جائز ہے کہ زید کو اپنے کریڈٹ کارڈ کے بیس پر لون لینے کی اجازت دے، اجازت دینے کی صورت میں بکر بھی گناہ میں شامل ہوگا۔ قال اللہ تعالیٰ : وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو (البقرة: ۲۷۵) وفي الأشباہ: ما حرم أخذہ حرم إعطاوٴہ کالربا ومہر البغي الخ (۱/۳۲، قاعدہ: ۱۴) وقال اللہ تعالی: وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند