معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 158107
جواب نمبر: 15810701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:430-390/M=5/1439
بینک سے لون لینے میں سود دینے کا ارتکاب لازم آتا ہے اور حدیث میں سود لینے والے اور دینے والے پر لعنت آئی ہے اور لعنت کے کام سے بچنا ضروری ہے پس گھر کی تعمیر کے لیے سودی لون لینے سے گریز کیا جائے اور بہن بیٹی کی شادی کے لیے بھی سودی لون لینے سے احتراز لازم ہے، شادی بیان میں عموما فضول وبے ضرورت کاموں میں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور بسا اوقات ریاء ونام ونمود کے لیے بڑا خرچ کیا جاتا ہے اور اس خرچ کو پورا کرنے کے لیے سودی لون کا ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی ہرگز اجازت نہیں، اگر کام سادگی اور سنت طریقے پر ہو تو لون لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میری چچی جو کہ بیوہ ہیں ان کی دو لڑکیاں ہیں پہلی کی عمر 26/سال اور دوسری کی 19/سال ہے۔ میری چچی زندگی بسر کرنے کے لیے سود کی رقم استعمال کرتی ہے۔ اس کے ایک بھائی اور بہن ہیں اور وہ اس کی ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔کیا اس کو زندگی بسر کرنے کے لیے سود کا پیسہ استعمال کرنا جائز ہے؟
2250 مناظرمیں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا پروویڈنٹ فنڈ
سود کی موجود در یعنی 8.5فیصدہر سال کے ساتھ شریعت میں حلال ہے یا حرام ہے؟جو رقم
تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے وہ ای پی ایف بورڈ کو جاتی ہے، جس کو وہ لوگ گورنمنٹ بونڈ،
سیکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس سرمایہ کاری پر متعین منافع کماتے ہیں
اور بدلہ میں اس کو ملازمین کوسود کی شکل میں واپس دیتے ہیں۔میں یہ جاننا چاہتاہوں
کہ ای پی ایف بورڈ جو سود دیتا ہے جب وہ حلال ہوتا ہے تو بینک کا سود کیوں حرام
ہوتا ہے؟ بینک کا سود بھی اسی طرح کا تحفہ ہے جو کہ بینک اپنے گراہکوں کو
دیتاہے۔ان دونوں صورتوں میں جمع کرنے والوں کو ایک متعین رقم بلا لحاظ منافع اور
نقصان کے ملتی ہے۔ برائے کرم میرے اس شبہ کی شریعت کی روشنی میں وضاحت فرماویں۔
میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اسلامی لحاظ سے بینک میں نوکری کرنا کیسا ہے؟
2579 مناظرمفتی صاحب ہم اپنی مسجد کے احاطہ کے اندر
واقع دکانوں سے ڈپوزٹ رقم وصو ل کرتے ہیں،وہ رقم بینک میں جمع کی جاتی ہے، نیز
دکانوں کا ماہانہ کرایہ بھی بینک میں جمع کیا جاتا ہے۔ہر چھ ماہ پر ہمیں بینک سے
تقریباً چھ ہزار روپیہ سود ملتا ہے۔پہلے سوال نمبر 11315میں آ پ نے فرمایا ہے کہ
سود کا پیسہ مسجد کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور بیت المال کے فنڈ میں
بھی شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے میرا سوال ہے کہ (۱)کیا ہم ایک نیا اکاؤنٹ کھلواسکتے ہیں اور
سود کا پیسہ اس میں منتقل کرسکتے ہیں اور جب ضرورت ہو تو ہم محتاج اور ضرورت مند
لوگوں کو یہ پیسہ دے دیں ؟ (اس نئے اکاؤنٹ میں صرف سود کا پیسہ رہے گا)۔ برائے کرم
جلد جواب عنایت فرماویں۔
میں نے ممبئی میں ایک مکان لیا تھا جس کی قیمت چھیاسی لاکھ ہے۔ اس میں مجھے بلیک میں ساٹھ لاکھ دینا تھا جو میں نے دے دیاہے۔ او رباقی چھبیس لاکھ مجھے کھلی رقم میں دینا ہے اور اتنی بڑی رقم کھلے طور پر دینا بہت مشکل ہے۔ اگر دیتے ہیں تو انکم ٹیکس کی گرفت میں آجائیں گے۔ اورچھبیس لاکھ دینے کے لیے میرے پاس پراپرٹی کی شکل میں بیچ کر دینے کے اسباب ہیں مگر انکم ٹیکس سے بچنے کی غرض سے یہ کرنا مشکل ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں ہوم لون لینا جائز رہے گا؟
2733 مناظر