• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 155517

    عنوان: کریڈٹ کارڈ و ڈیبٹ کارڈ، پر ملنے والے ریوارڈذ پوائنٹس پر شرعی حکم؟

    سوال: میرا نام محمد ذیشان ہے اور دہلی سے تعلق رکھتا ہوں، ایک بین لاقوامی کمپنی میں ملازم ہوں، حضرات میں سوال ہے کہ کسی بھی منافع یا بڑھی ہوئی رقم کو سود ماننے کے کیا اصول ہے ، سود کی آج کل کے ماحول کے حساب سے کیا کیا شکل ہو سکتی ہیں؟ آج کل ڈیبٹ کارڈ کریڈٹ کارڈ پر کمپنی یا بینک، کارڈ، استعمال کرنے پر کچھ روارڈ پوائنٹس دیتی ہے ، مثلاً ۰۰۱ روپئے خرچ کرنے پر ۲ پوائنٹ ملتے ہیں، ان پوائنٹس کی ولیو ہوتی ہے جس کے عوض میں ہم کسی تھرڈ پارٹی سے خریداری کر سکتے ہیں، کیا یہ پوائنٹس استعمال کرنے کی اجازت ہے شریعت میں؟ کیا یہ سود کی شکل میں داخل ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 155517

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:76-226/sn=4/1439

    ”ربا“ درحقیقت عقدِ معاوضہ کے ہراس زیادتی کو کہتے ہیں جو متعاقدین میں سے کسی کو حاصل ہو بایں طور کہ اس زیادتی کی پشت پر کوئی بدل نہ ہو۔ الربا: ہو في اللغة الزیادة وفي الشرع: ہو فضل خالٍ عن عوضٍ بمعیار شرعيّ مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (درمختار مع الشامي: ۷/ ۳۹۸وبعدہ، ط: زکریا)

    (۲) آج کل معاشرے میں سود کی مختلف شکلیں رائج ہیں، مثلاً زیادہ ڈپازٹ دے کر بلاکرایہ یا کم کرایے پر مکان میں رہنا، اسی طرح انشورنس پالیسی اور بونڈز وغیرہ میں بھی ”سود“ ہوتا ہے۔ سود سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ”مسائل سود“ موٴلفہ مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی / دامت برکاتہم، اسی طرح ”مسئلہ سود“ مرتبہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔

    (۳) کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والے پوائنٹ پر بہ ظاہر ”سود“ کی تعریف صادق نہیں آتی، یہ محض ترغیبی انعامات معلوم ہوتے ہیں؛ اس لیے انہیں استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند