• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 154912

    عنوان: رقم کے بدلے سامان ركھ لینا

    سوال: میرے دوست نے مجھ سے ۱۵/ ہزار روپئے لیے اور تین مہینہ کا وقت لیا، اس کے بدلے اس نے سونے کی انگوٹھی دی اور کہا کہ اگر تین مہینہ میں ۱۵/ ہزار میں نے نہیں چکایا تو تم اسے رکھ لینا، انگوٹھی کی قیمت ۲۰/ ہزار ہے، کیا اس طرح کی لین دین جائز ہے یا ناجائز؟

    جواب نمبر: 154912

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 26-35/D=1/1439

    صورت مسئولہ میں قرض کا معاملہ تو بالکل درست ہے؛ لیکن سونے کی انگوٹھی گروی رکھنے کا معاملہ درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ مقروض کا یہ کہنا: ”کہ اگر تین مہینہ میں ۱۵/ ہزار میں نے نہیں چکایا تو تم اسے رکھ لینا“ گویا وہ رہن کے معاملہ کے ساتھ مزید بیع کا ایک اور معاملہ کر رہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ: اوّلاً تو میری یہ انگوٹھی آپ کے پاس تین مہینہ تک گروی رہے گی اگر میں مقررہ وقت پر آپ کا قرض ادا کردیتا ہوں تو انگوٹھی واپس لے لوں گا (یہ تو رہن کا معاملہ ہوا) لیکن اگر کسی وجہ سے مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کرسکا تو تم میرے قرض کے عوض انگوٹھی کے مالک ہو جاوٴ گے (یہ بیع کا معاملہ ہوا) اور حدیث میں ایک ساتھ دو معاملے کرنے کی ممانعت آئی ہے؛ لہٰذا مذکورہ رہن کا معاملہ درست نہ ہوگا عن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ - رضی اللہ عنہ - قال: نہی النبي صلی اللہ علیہ وسلم - عن صفقتین في صفقة (اعلاء السنن: ۱۴/۱۸۱)

    البتہ درمختار وغیرہ میں اس کی جائز صورت یہ لکھی ہے کہ رہن رکھتے وقت راہن (گروی رکھنے والا) مرتہن (جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی جائے) کو شیء مرہون (گروی کی چیز) کو فروخت کرنے کی اجازت دیدے کہ: میں نے اگر فلاں وقت تک پیسے ادا نہ کئے تو آپ شیء مرہون کو فروخت کے کے اپنا روپیہ وصول کرلینا یعنی اب مرتہن کے لیے مقررہ وقت پر قرض نہ ملنے کی صورت میں شیء مرہون کو فروخت کرکے پیسہ وصول کرنے کی اجازت ہوگی اور جو زائد رقم ہوگی وہ راہن کو واپس دیدی جائے گی۔ فإن وکل الراہن المرتہن أو وکل العدل أو غیرہما ببیعہ عند حلول الأجل صح توکیلہ لو الوکیل أہلا للبیع عند التوکیل الخ (الدر المختار: ۱۱۹/۱۰، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند