• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 154561

    عنوان: سود پر پیسہ لینا کس صورت میں درست ہے کہ جس پر گناہ نہ ہو؟

    سوال: (۱) ہم نے بہت سے کام کے لیے (تجارت، بیماری ، شادی اور ایک دوکان) لوگوں سے قرض لیا تھا، جب اس کے واپسی کا تقاضہ زیادہ ہونے لگا تو گھر کی مستورات کے زیور گہن رکھ کر پیسے لیے گئے پھر بھی وہ قرضہ ختم نہیں ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم پر تقریباً ۲۰/ لاکھ روپیہ کا قرض ہے جس میں زیور اب تک بھی گہن ہے۔ (۲) ہمارے والد صاحب نے بھی اپنی پینشن پر ۵/ لاکھ روپئے کا لون بینک سے لیا ہے۔ (۳) جب کہ ہمارے والد صاحب کے پاس ۴/ ایکڑ زمین اور ۴/ مکان اور ۳/ جگہ دوکان ہے، اس کے باوجود ہم نے زیور رکھ کر قرضہ لیا ہے، کیا یہ درست ہے؟ (۴) ہم ۶/ بھائی اور ۵/ بہنیں ہیں، بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں، سود پر جو پیسہ لیا گیا ہے، کیا اس میں سب لوگ گنہگار ہوں گے؟ یا جس بھائی نے لیا ہے صرف وہ؟ جب کہ پیسہ سب کے لیے لیے گیا ہے۔ پوری طرح سے وضاحت کیجئے۔

    جواب نمبر: 154561

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1383-1349/Sd=1/1439

    ( ۱تا ۴) سخت مجبوری اور اضطراری حالت میں جب کہ کھانے ، پینے اور رہنے کا انتظام دشوار ہوجائے ، تو بقدر ضرورت سودی قرض لینے کی گنجائش ہے، اس کے بغیر سودی قرض لینا ناجائز و حرام ہے ، صورت مسئولہ میں آپ کے والد صاحب نے جائداد ہونے کے باوجود سودی قرض لے کر ناجائز وحرام کا ارتکاب کیا، اُن کے لیے توبہ استغفار ضروری ہے اور جلد از جلد سودی قرض کی ادائے گی کر کے ذمہ فارغ کرنا لازم ہے ، اسی طرح آپ کے جس بھائی نے سودی قرض لیا ہے ، اُس کے لیے بھی توبہ استغفار ضروری ہے ، اگر سودی قرض سارے بھائیوں کے لیے اُن کی رضامندی اور اجازت سے لیا گیا ہے ، تو سب گنہگار ہونگے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند