• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 153826

    عنوان: میری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر جو رقم میرے بھائی نے مجھ سے لی ہے آیا وہ سود ہوگا

    سوال: میں نے اپنے بھائی سے کسی وقت میں 50000 روپئے ادھار لیا تھا، میں نے کہا تھا کہ ایک مہینہ میں واپس کر دوں گا لیکن وہ ایک ہفتہ میں کہہ رہا تھا۔ ایک ہفتہ بعد اس نے مجھ سے تقاضہ کرنا شروع کر دیا، میں نے کہا کہ میرے پاس کام کا آرڈر لگا ہوا ہے اگر تم چاہو تو میں اس میں تم کو اپنا پاٹنرشپ بنا لیتا ہوں، میں نے کہا کہ50000 اور دے دو، پھر 10000 روپئے میں تجھے اپنے منافع میں سے دوں گا اس نے کہا نہیں، میں تو 100000 پر پورے 50000 منافع لوں گا، میں نے کہا کہ اتنے تو مجھے بھی نہیں بچیں گے کچھ کم منافع لے لو، 30000 روپئے اس نے فکس کر دیئے، جب مال تیار ہوکر گیا تو وہ مال 370000 روپئے کا تھا اور اس میں سے گراہک نے 275000 کا ہی مال رکھا باقی واپس دے دیا، میں نے بھائی کے 100000 روپئے دے دئیے اور منافع کے بارے میں کہا کہ مال واپس آگیا ہے تم چاہو تو مال 30000 روپئے کا لے لو اس نے کہا کہ مجھے مال سے کوئی مطلب نہیں مجھے میرے 30000 چاہئے وہ لڑنے لگا، میں نے کہا کہ بھائی یہ تو سود ہو گیا، اس نے کہا کی سود ہی صحیح میرے 30000 روپئے منافع کے دو، میں نے کہیں سے انتظام کرکے 30000 روپئے اس کو دے دیئے۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر جو رقم میرے بھائی نے مجھ سے لی ہے آیا وہ سود ہوگا یا اس کا منافع؟ جب کہ منافع کا مال واپس آچکا تھا اور اس نے فکس کی ہوئی رقم لی تھی وہ 30000 کا مال بھی لے سکتا تھا کیونکہ اس کا اسی مال کا شوروم ہے جو وہ اپنی دوکان پر رکھ کر بھی بیچ سکتا تھا ۔ براہ کرم مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ اس نے سود لیا یا اپنا منافع؟

    جواب نمبر: 153826

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1407-1444/L=1/1439

    شرکت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہے، صرف نفع میں شریک رہنا اور نقصان نہ برداشت کرنا درست نہیں، سوال سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے بھائی نے شرکت کے بغیر محض قرض کی وجہ سے تیس ہزار روپئے لیے ہیں؛ اس لیے آپ کے بھائی کے لیے تیس ہزار روپئے لینا جائز نہیں، یہ سود میں داخل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند