• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 15332

    عنوان:

    میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا پروویڈنٹ فنڈ سود کی موجود در یعنی 8.5فیصدہر سال کے ساتھ شریعت میں حلال ہے یا حرام ہے؟جو رقم تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے وہ ای پی ایف بورڈ کو جاتی ہے، جس کو وہ لوگ گورنمنٹ بونڈ، سیکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس سرمایہ کاری پر متعین منافع کماتے ہیں اور بدلہ میں اس کو ملازمین کوسود کی شکل میں واپس دیتے ہیں۔میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ای پی ایف بورڈ جو سود دیتا ہے جب وہ حلال ہوتا ہے تو بینک کا سود کیوں حرام ہوتا ہے؟ بینک کا سود بھی اسی طرح کا تحفہ ہے جو کہ بینک اپنے گراہکوں کو دیتاہے۔ان دونوں صورتوں میں جمع کرنے والوں کو ایک متعین رقم بلا لحاظ منافع اور نقصان کے ملتی ہے۔ برائے کرم میرے اس شبہ کی شریعت کی روشنی میں وضاحت فرماویں۔

    سوال:

    میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا پروویڈنٹ فنڈ سود کی موجود در یعنی 8.5فیصدہر سال کے ساتھ شریعت میں حلال ہے یا حرام ہے؟جو رقم تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے وہ ای پی ایف بورڈ کو جاتی ہے، جس کو وہ لوگ گورنمنٹ بونڈ، سیکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس سرمایہ کاری پر متعین منافع کماتے ہیں اور بدلہ میں اس کو ملازمین کوسود کی شکل میں واپس دیتے ہیں۔میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ای پی ایف بورڈ جو سود دیتا ہے جب وہ حلال ہوتا ہے تو بینک کا سود کیوں حرام ہوتا ہے؟ بینک کا سود بھی اسی طرح کا تحفہ ہے جو کہ بینک اپنے گراہکوں کو دیتاہے۔ان دونوں صورتوں میں جمع کرنے والوں کو ایک متعین رقم بلا لحاظ منافع اور نقصان کے ملتی ہے۔ برائے کرم میرے اس شبہ کی شریعت کی روشنی میں وضاحت فرماویں۔

    جواب نمبر: 15332

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1288=1030/1430/ل

     

    سود کا شرعی مفہوم یہ ہے کہ اموال ربویہ میں تبادلہ کا معاملہ کیا جائے اور پھر کسی جانب کوئی زیادتی بلا عوض ہو، پراوڈنٹ فنڈ کے سلسلے میں جو زائد رقم محکمہ دیتا ہے اس پر سود کی یہ تعریف صادق نہیں آتی، کیونکہ زائد کرکے دینا محکمہ کا اپنا فعل ہے، خواہ وہ کسی ذریعے سے حاصل کرکے دے، ملازم اس کا مطالبہ نہیں کرتا اور نہ ہی ملازم کا اس میں کوئی دخل ہوتا ہے، اس کے علاوہ بینک جو رقم زائد کرکے دیتا ہے اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے کیونکہ بینک میں جمع کرنے والا شخص اپنے قصد وارادہ سے اس میں جمع کرتا ہے اس لیے بینک کی طرف سے ملی زائد رقم سود ہے، اس کا استعمال اپنے کسی کام میں جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند