• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 149664

    عنوان: بینک کے کسٹمر سروس پوائنٹ کا ایجنٹ بننا کیسا ہے؟

    سوال: زید کو بینک آف انڈیا نے کسٹمر سروس پوائنٹ C.S.P. (CUSTOMER SERVICE POINT)کا ایجنٹ بنایا ہے جس میں اس کو فی کھاتہ کھولنے پر ۲۵/ روپئے ملیں گے اور ۶/ ماہ تک زید کو ۲۵۰۰/ ماہانہ بینک دے گا اور بینک زید کو اکاوٴنٹ میں کسٹمر کا پیسہ جمع کرنے اور نکالنے پر ایک لاکھ میں چار سو روپئے دے گی، کیا یہ کام درست ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں، کرم ہوگا۔

    جواب نمبر: 149664

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 621-645/N=7/1438

    بینک کا بنیادی کاروبار سودی لین دین کا ہوتا ہے اور اس میں فکسڈ ڈپازٹ کا کام بہ کثرت ہوتا ہے، متوسط درجہ کے غیر مسلم اور دین وشریعت سے کم تعلق رکھنے والے عام مسلمان اس میں بہ کثرت حصہ لیتے ہیں اور جب کوئی شخص کسی بھی بینک کے کسٹمر سروس پوائنٹ کا ایجنٹ بنے گا تو اسے فکسڈ ڈپازٹ اکاوٴنٹ اور سیونگ اکاوٴنٹ بھی کھولنا ہوگا اور ان دونوں کھاتوں میں لوگوں کی رقمیں بھی جمع کرنی ہوں گی، اور اسے انہی سب کاموں پر کمیشن یا تنخواہ ملے گی۔ پس ایجنٹ کا کام مجموعی طور پر بینک کے ملازم کا کام ہوگا اور اس کا آفس کارکردگی میں بینک کی ذیلی برانچ جیسا ہوگا؛ اس لیے کسی مسلمان کے لیے کسی بھی بینک کے کسٹمر سروس پوائنٹ کا ایجنٹ بننا شرعاً جائز نہیں ہے۔

    ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۵)، ﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۶)، ﴿وَاَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ﴾ کان الربا محرمًا علیہم، کما حرم علینا ﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل ۱: ۲۰۲، سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰)، ﴿یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ، وَاتَّقُوْا النَّارَ الَّتِيْ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ (سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰، ۱۳۱)، کان أبوحنیفةیقول: ہي أخوف آیة في القراٰن حیث أوعد اللّٰہ المؤمنین بالنار المعدة للکافرین، إن لم یتقوہ في اجتناب محارمہ (مدارک التنزیل۱: ۲۹۱)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء ( مسلم شریف ۲: ۷۲،، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الابصار مع در وشامی ۷: ۳۹۸ - ۴۰۰، مطبوعہ مکتبہ: زکریا دیوبند)، وأما ربا النسیئة فہو الأمر الذي کان مشہودًا متعارفًا في الجامعیة، وذٰلک أنہم کانوا یدفعون المال علی أن یأخذوا کل شہر قدرًا معینًا، ویکون رأس المال باقیًا (تفسیر کبیر ۷: ۹۱)، کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا، کما علم عما نقلہ عن البحر ( شامی ۷: ۳۹۵)، الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض (إعلاء السنن، رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا ۱۴: ۵۳۳ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشی)، الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲: ۲۸۲)، قال القرطبي فی المفھم (۴: ۵۰۰، ط: دار ابن کثیر دمشق، بیروت) : وفي معنی المعطي: المعین علیہ، وکاتبہ: الذي یکتب وثیقتہ، وشاھداہ: من یتحمل الشھادة بعقدہ وإن لم یوٴدھا، وفي معناہ: من حضر فأقرہ اھ، وقال الأبي في إکمال الإکمال (۴: ۲۸۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) : ودخول الکاتب والشاھد لإعانتھما علی ھذہ المعصیة (ط)، والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ، وقال السنوسي في مکمل إکمال الإکمال (مع إکمال الإکمال۴: ۲۸۱) : والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ (ب) اھ، و فی الکاشف عن حقائق السنن للطیبي (ص ۲۱۲۴، ط: مکتبة نزار مصطفی الباز، مکة المکرمة) : فیہ تصریح بتحریم کتابة المتبایعین المترابیین والشھادة علیھما وبتحریم الإعانة علی الباطل کنایة اھ، وقال في التعلیق الصبیح (۳: ۳۰۳، ط: المجلس العلمي، حیدر آباد) : قولہ: آکل الربا أي: آخذہ وموکلہ: أي: معطیہ وکاتبہ وشاھدیہ للإعانة علی الحرام، قال اللہ تعالی: ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان اھ، وقال المفتی محمد تقي العثماني في تکملة فتح الملہم (۱: ۵۷۵، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) : قولہ: وکاتبہ: لأن کتابة الربا إعانة علیہ اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند