• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 148973

    عنوان: بالقصد انٹرسٹ كے ارادے سے پیسے جمع كرنا اور اس كو بیت الخلاء وغیرہ بنانے میں استعمال كرنا؟

    سوال: میں میانمار (برما) کا رہنے والا ہوں، میانمار میں کوئی اسلامی بینک نہیں ہے، اگر ہم بینک میں پیسے جمع کرنا چاہیں تو ہمارے لیے دو آپشن ہیں، سیونگ اکاؤنٹ جس میں انٹریسٹ ملتاہے اور کرنٹ اکاؤنٹ جس میں کوئی انٹریسٹ نہیں ملتاہے، اس لیے اگر ہم انٹریسٹ سے بچنا چاہیں تو ہم کرنٹ اکاؤنٹ میں اپنے پیسے جمع کرسکتے ہیں، مگر کچھ مسلمان سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرتے ہیں انٹریسٹ لینے کے ارادے سے تاکہ اس کا استعمال بیت الخلاء بنانے اور رشوت دینے وغیرہ میں کیا جاسکے، تو کیا اس طرح کے کاموں کے لیے انٹریسنٹ لینا حلال ہے؟

    جواب نمبر: 148973

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 464-435/N=6/1438

    کرنٹ اکاوٴنٹ اور سیونگ اکاوٴنٹ میں صرف یہ فرق نہیں ہے کہ کرنٹ اکاوٴنٹ میں انٹرسٹ نہیں ملتا اور سیونگ میں کچھ فیصد انٹرسٹ ملتا ہے؛ بلکہ دونوں اکاوٴنٹس میں مختلف وجوہ سے فرق ہے،(جس کی تفصیل واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں) اور لوگوں کی ضروریات کے اعتبار سے بھی دونوں اکاوٴنٹ یکساں نہیں ہیں ،بعضوں کی ضروریات صرف سیونگ اکاوٴنٹ سے پوی ہوتی ہے اور بعضوں کی کرنٹ اکاوٴنٹ سے؛ اس لیے آدمی اپنے حالات وضروریات ومسائل کے مد نظر دونوں میں سے کوئی بھی اکاوٴنٹ کھلواسکتا ہے (مستفاد:منتخبات نظام الفتاوی، ۳: ۱۶۲، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز،دہلی)؛ البتہ اگر کسی نے سیونگ کھلوایا تو اس میں انٹرسٹ کے نام سے جو رقم ملے ، وہ ذاتی استعمال میں نہ لائی جائے؛ بلکہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدے۔ اور اگر انٹرسٹ سرکاری بینک کا ہو تو سرکار کے غیر شرعی ٹیکسس میں بھرا جاسکتا ہے، جیسے: انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس وغیرہ۔ان کے علاوہ کسی اور مصرف، جیسے: رشوت وغیرہ میں انٹرسٹ کی رقم لگانا جائز نہیں اور اکابر علمائے دیوبند کے فتوے کے مطابق بیت الخلاء اور غسل خانہ وغیرہ کی تعمیر میں بھی یہ رقم نہیں لگائی جاسکتی۔ ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……، قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ(إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند