• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 147776

    عنوان: بینک كی ملازمت سے حاصل ہونے والا پیسہ جہیز میں لگانا درست ہے یا نہیں؟

    سوال: (۱) میرے بھائی بینک میں نوکری کرتے ہیں، بینک کلرک ہیں، شروع سے ہی وہ بینک میں نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر کسی طرح نوکری لگ گئی تو انہوں نے جوائن کرلیا، مگر پھر بھی وہ دوسری نوکری کی تلاش میں ہیں، ان کو نوکری کرتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے جب سے نوکری لگی ہے تب سے وہ کھانے پینے کے لیے ابو سے پیسہ لے رہے ہیں، نوکری کرتے ہوئے دوسری نوکری کے امتحان کی تیاری کرنا بھی مشکل ہے اس لیے میں یہ مشورہ دیتا ہوں بھائی کو کہ نوکری چھوڑ کر گھر میں بیٹھ کر تیاری کریں، اب اس حال میں انہیں کیا کرنا چاہئے ، آپ کی کیا رائے ہے؟ (۲) مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں فتاوی عثمانی میں کہ بینک میں نوکری کرنا ایسے کام میں جس میں سود کا لین دین ہو لکھا پڑھی ہو وہ تو ناجائز ہے اور حرام ہے ہی اور اس کی جو تنخواہ ہے وہ تو حرام ہے ہی مگر یہ جو کہا جاتا ہے کہ آپ تب تک ملازمت نہ چھوڑیں جب تک کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہ مل جائے، یہ در اصل کوئی فتوی نہیں مگر ایک مشورہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کبھی کبھار نوکری چھوڑنے کہ وجہ سے ناقابل برداشت معاش کی تنگی کی وجہ سے اللہ سے بدگمان ہو جاتا ہے اور حالت شرک تک پہنچ جاتا ہے، اس لیے اس بڑے گناہ سے بچنے کے لیے یہ مشورہ دیا جاتا ہے، کیا یا بات صحیح ہے؟ کیا یہ جو بات آپ کہتے ہیں نوکری نہ چھوڑنے کا یہ مشورہ ہے کوئی فتوی نہیں؟ (۳) میرے بھائی اگر نوکری چھوڑ دیں تو ان کو تو کوئی معاش کی تنگی تو نہیں ہوگی کیوں کہ ابھی تک تو انہیں ابو ہی کھلا رہے ہیں اور ان کی شادی بھی نہیں ہوئی ہے، ہاں نوکری چھوڑنے کے بعد دوسری نوکری نہ ملے تو دماغی ٹینشن وغیرہ ہو سکتا ہے، ایسی حالت میں کیا بہتر ہوگا؟ (۴) بھائی نوکری نہیں چھوڑنا چاہتے جب تک کہ کوئی متبادل جگہ نہ مل جائے، ابو بھی کہتے ہیں مت چھوڑو جب تک کہ دوسری جگہ نہ مل جائے، مگر وہ جو ابھی تنخواہ کما رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام؟ کیونکہ ابو نے کچھ عالموں سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ نوکری کرنے دیں تو اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب نوکری کرنے کو کہہ رہے ہیں تو تنخواہ جائز ہونی چاہئے۔ (۵) ابو اور بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ بینک کا پیسہ حرام ہے تو حرام کا پیسہ حرام میں استعمال کریں گے، یعنی میری دو بہنیں ہیں ان کو جہیز دینے میں وہ پیسہ استعمال کریں گے کیونکہ آج کل بنا جہیز کے شادی ہونا بہت مشکل ہے، اگر کوئی لڑکا نہ بھی بولے پھر بھی شادی کے بعد ستاتے ہیں کہ جہیز کچھ نہیں لایا ․․․․․․ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ دے دیا جائے، ایسا لڑکا ڈھونڈھنا بہت مشکل ہے آج کل جو جہیز نہ لے ، اس لئے کہتے ہیں کہ اس پیسہ کو جہیز دینے میں استعمال کریں گے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کیا اس پیسہ کو جہیز دینے میں استعمال کر سکتے ہیں؟ (۶) کیا جتنا پیسہ بینک کی نوکری سے کمایا ہے سب کو غریبوں میں بانٹنا واجب ہے؟ کیا یہ حقوق العباد میں داخل ہے؟ سارا پیسہ اپنے استعمال میں لے آیا جیسے شادی میں خرچ کیا تو کیا ہوگا؟ کیسا گناہ ہوگا؟ میں نے کہیں پڑھا ہے شاید فتاوی عثمانی میں ہے کہ یہ حرام آمدنی واجب الادا ہے، ابو کو میں نے یہ بتایا تو ابو کہتے ہیں کہ تب تو یہ بے وقوفی ہے کہ کوئی دن رات دوسروں کے لیے کماتا رہے۔ برائے مہربانی جلد از جلد جواب دینے کی کوشش کریں۔

    جواب نمبر: 147776

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  538-631/sn=6/1438

    ”بینک“ میں آج کل جائز اور ناجائز ہرطرح کے امور انجام پاتے ہیں، اکر کسی بینک ملازم کے ذمے سودی حساب کتاب لکھنا یا کوئی ایسا کام ہے جس کا تعلق براہ راست سودی لین دین (مثلاً سود پر مبنی فکسڈ ڈپازٹ کے دستاویزات کی خانہ پری یا ان کی تائید وتوثیق وغیرہ) سے ہے توایسی ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے اور ناجائز کاموں کے مقابل تنخواہ کا جو حصہ آئے گا وہ بھی حلال نہیں ہے، اگر آپ کے بھائی کے ذمے اسی طرح کا کام ہے تو صورت مسئولہ میں ان کے لیے یہ ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے، انھیں چاہیے کہ ملازمت ترک کرکے اچھی تیاری کرے اور کوئی بے غبارملازمت (یا روزگار) حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

    (۲، ۳، ۴) اگر کسی بینک ملازم کے ذمے خالص حرام اور ناجائز کام ہو پھر بھی بسا اوقات جو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ ملازمت پر برقرار رہتے ہوئے دوسری ملازمت تلاش کرے، یہ تو محض اس لیے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آدمی ملازمت چھوڑنے کے بعد بالکل معاشی تنگی میں آجائے پھر وہ خدانخواستہ اس سے بھی زیادہ حرام کام کا ارتکاب کرڈالے یا خدا سے بدظن ہوکر شرک یا کفر میں مبتلا ہوجائے، رہے آپ کے بھائی تو چوں کہ ان کے لیے بہ ظاہر اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے نیز آئندہ اچھی ملازمت ملنے کی امید بھی ہے؛ اس لیے ان کے لیے یہ ”مشورہ“ نہیں ہے، اگر کسب حلال کے پیش نظر اور ایک حکمِ شرعی سمجھ کر ملازمت ترک کریں گے تو ان شاء اللہ صورتِ مسئولہ میں انھیں ”دماغی ٹینشن“ بھی کوئی خاص نہ ہوگی۔

    (۵) ناجائز کام کی ملازمت کرنے والے کی تنخواہ کا جو حصہ واجب التصدق ہوتا ہے وہ غرباء مساکین کو دیدینا ضروری ہو تا ہے۔

    (۶) اصولی اعتبار سے حرام کام کی ملازمت شرعاً جائز ہی نہیں ہے اوراس کی اجرت کے طور پر ملنے والی رقم بھی حلال نہیں ہے، اکر کسی نے اتفاقاً یا مجبوری میں حرام کام کا معاوضہ لے لیا ہے تو اس نے ایک حکمِ شرعی کی خلاف ورزی کی، اب اس کے وبال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ صدق دل سے توبہ کرے اور تنخواہ کی جو رقم ملی ہے اگر موجود ہے تو بعینہ اسے غریبوں کو دیدے، اگر خرچ کرڈالی ہے تو آئندہ جب اللہ وسعت دے اس وقت آہستہ آہستہ اس کا بدل غریبوں کو دیدے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند