معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 14182
میرے
ایک دوست نے مجھ کو ایک شخص کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے کہا جن سے میرے دوست کا
اچھی طرح سے تعارف ہے۔ میں نے اس کو کچھ پیسہ دیا اس وعدہ کے ساتھ کہ ایک سال کے
بعد کچھ منافع ہوگا۔ ایک سال کے بعد اس نے میرا پورا پیسہ واپس کردیا کچھ منافع کے
ساتھ۔ کیا میرے لیے اس زائد رقم کا لینا جائز ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے ایک
دوست نے مجھ سے کچھ رقم ادھار لی اور اس نے میرا پیسہ کچھ زائد رقم کے ساتھ واپس
کردیا جیسا کہ اس نے پسند کیا۔ میں نے اس سے کسی متعین رقم کے لیے نہیں کہاتھا۔ اس
کے بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟
میرے
ایک دوست نے مجھ کو ایک شخص کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے کہا جن سے میرے دوست کا
اچھی طرح سے تعارف ہے۔ میں نے اس کو کچھ پیسہ دیا اس وعدہ کے ساتھ کہ ایک سال کے
بعد کچھ منافع ہوگا۔ ایک سال کے بعد اس نے میرا پورا پیسہ واپس کردیا کچھ منافع کے
ساتھ۔ کیا میرے لیے اس زائد رقم کا لینا جائز ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے ایک
دوست نے مجھ سے کچھ رقم ادھار لی اور اس نے میرا پیسہ کچھ زائد رقم کے ساتھ واپس
کردیا جیسا کہ اس نے پسند کیا۔ میں نے اس سے کسی متعین رقم کے لیے نہیں کہاتھا۔ اس
کے بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟
جواب نمبر: 14182
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1450=1145/ھ
اگر صرف یہی کہا تھا کہ ?کچھ منافع ہوگا? تو زائد رقم سود کے حکم میں ہے جو آ پ کے حق میں حرام ہے اس کو واپس کردیں، البتہ اگر فی صد (نصف نصف= ایک ثلث دو ثلث وغیرہ) منافع میں شرکت کا معاملہ دونوں کے مابین صاف صاف طے ہوا تھا اور پھر سال بھر کاروبار کے بعد جو منافع ہوا اس دوست نے اصل رقم اور منافع میں طے شدہ شرکت والی رقم لوٹائی ہے تو زائد ملنے والی رقم بھی حلال ہے۔
(۲) زائد رقم کے لین دین کی بات نہ آپ کی طرف سے کچھ ہوئی تھی اور نہ دوست کی جانب سے تھی تو لے لینے کی گنجائش ہے، ورنہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند