• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 11998

    عنوان:

    فتوی آئی ڈی نمبر 10378کے جواب میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ کاروبار سود ہے۔ (۱)بکر نے ایک سیٹھ زید سے چھ لاکھ ادھار لے کر ایک کشتی لی ہے اب وہ پابند ہے کہ سارا مال اسی زید سیٹھ کو دے پچاس روپیہ فی کلو کے حساب سے جب کہ مارکیٹ میں 65روپیہ فی کلو ہے۔ بکر کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سیٹھ زید کا قرض ادا کرے، اگر کشتی بیچے تو پیسے کم ملیں گے تو اس کا حل بتائیں کہ سود سے بچے یا مجبوری میں یہ کرسکتا ہے؟ (۲)کشتی جس کی ہے اس کو بارہ حصوں میں سے پانچ حصے ملتے ہیں او رکشتی کے مزدور کو ایک حصہ ملتا ہے۔ لیکن جب مال بیچا جاتا ہے 65روپیہ فی کلو کے حساب سے تو تقسیم میں 55روپیہ فی کلو کے حساب سے ملتا ہے مزدور کو۔یہ دس روپیہ کشتی والا لیتا ہے۔ اور جب جب ضرورت ہوتی ہے کشتی کے خرچے کی تو اسی دس روپیہ پر کلو میں سے ادا کیا جاتاہے مگر یہ خرچہ پورا کیا جاتاہے ادھار کی بنیاد پر او رکشتی کے مزدور اس پیسے کے ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اگر دس روپیہ فی کلو نہ رکھیں تو کشتی کا کوئی خرچہ ہو تو یہ ادا نہیں ہو پاتا۔ اس کا حل بتائیں۔ (۳)اگر یہ دس روپیہ فی کلو بچت اگر اتنا بچے کہ دوسری کشتی لی جاتی ہے تو پھر وہ سیٹھ کی ہوجاتی ہے اسی طرح ایک سے دو، دو سے تین کشتیوں کے مالک ہوجاتے ہیں۔ اور کشتی کے مزدوروں کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ انھیں موقع ملتا ہے پیسے کمانے کا کیوں کہ وہ خود کشتی نہیں خرید سکتے ۔ برائے مہربانی ان مسئلوں کا حل بتائیں۔

    سوال:

    فتوی آئی ڈی نمبر 10378کے جواب میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ کاروبار سود ہے۔ (۱)بکر نے ایک سیٹھ زید سے چھ لاکھ ادھار لے کر ایک کشتی لی ہے اب وہ پابند ہے کہ سارا مال اسی زید سیٹھ کو دے پچاس روپیہ فی کلو کے حساب سے جب کہ مارکیٹ میں 65روپیہ فی کلو ہے۔ بکر کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سیٹھ زید کا قرض ادا کرے، اگر کشتی بیچے تو پیسے کم ملیں گے تو اس کا حل بتائیں کہ سود سے بچے یا مجبوری میں یہ کرسکتا ہے؟ (۲)کشتی جس کی ہے اس کو بارہ حصوں میں سے پانچ حصے ملتے ہیں او رکشتی کے مزدور کو ایک حصہ ملتا ہے۔ لیکن جب مال بیچا جاتا ہے 65روپیہ فی کلو کے حساب سے تو تقسیم میں 55روپیہ فی کلو کے حساب سے ملتا ہے مزدور کو۔یہ دس روپیہ کشتی والا لیتا ہے۔ اور جب جب ضرورت ہوتی ہے کشتی کے خرچے کی تو اسی دس روپیہ پر کلو میں سے ادا کیا جاتاہے مگر یہ خرچہ پورا کیا جاتاہے ادھار کی بنیاد پر او رکشتی کے مزدور اس پیسے کے ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اگر دس روپیہ فی کلو نہ رکھیں تو کشتی کا کوئی خرچہ ہو تو یہ ادا نہیں ہو پاتا۔ اس کا حل بتائیں۔ (۳)اگر یہ دس روپیہ فی کلو بچت اگر اتنا بچے کہ دوسری کشتی لی جاتی ہے تو پھر وہ سیٹھ کی ہوجاتی ہے اسی طرح ایک سے دو، دو سے تین کشتیوں کے مالک ہوجاتے ہیں۔ اور کشتی کے مزدوروں کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ انھیں موقع ملتا ہے پیسے کمانے کا کیوں کہ وہ خود کشتی نہیں خرید سکتے ۔ برائے مہربانی ان مسئلوں کا حل بتائیں۔

    جواب نمبر: 11998

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 839=797/ب

     

    سود کا لینا دینا، دونوں شرعاً ناجائز ہے، الآخذ والمعطي آثمان․ صورت مسئولہ میں ایسی کوئی سخت مجبوری نہیں ہے جس کی بنا پر جواز معلوم ہو، کسی آدمی سے بنا سودی قرض لے کر سیٹھ کے قرض چکانے کی کوشش کی جائے، اور کشتی کو بھی بیچ دیں، اگر فوری طور پر انتظام نہ ہوسکے تو حسب سابق کام کرتے رہیں اور اس سے بچنے کے واسطے کوشاں رہیں، ان شاء اللہ ضرور کوئی راستہ پیدا ہوگا: قال اللہ عز وجل: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًا۔

    (۲) بارہ حصے میں سے پانچ حصے ملتے ہیں، کشتی والے کو اور ایک حصہ مزدور کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی کہ اس کی کیا شکل ہوتی ہے، سیٹھ جی جب گیہوں کو 65 روپئے کی جگہ 55 روپئے کے حساب سے لیتے ہیں یعنی دس روپئے کم دیتے ہیں۔ آپ کے کہنے کے مطابق سیٹھ جی دس روپئے اس وجہ سے کم دیتے ہیں کیوں کہ کشتی کی کسی ضرورت کے وقت فوری طور پر سیٹھ جی قرض فراہم کرتے ہیں۔ تو قرض کے فراہم کے واسطے دس روپئے کم دینا یہ سراسر ناجائز وحرام ہے۔ اگر سیٹھ جی غیرمسلم ہے اور شرعی حکم کو نہیں مانتے ہیں تو اس سے بچنے کی فکر کرنا آپ حضرات کے ذمے ہے۔

    (۳) سیٹھ جی کے لیے اس طرح کرنا ناجائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند