• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 10378

    عنوان:

    ہمارے علاقہ میں کمیشن پر اس طرح کاروبار کرتے ہیں کہ سیٹھ لوگ کشتی والوں کو کشتی کے لیے جال دلاتے ہیں اور کشتی کے لیے پٹرول وغیرہ دلاتے ہیں کشتی کا کوئی خرچہ ہوتا ہے تو سیٹھ لوگ دیتے ہیں مگر ادھار پر یعنی قرض دیتے ہیں۔ اپنا قرض تھوڑا تھوڑا کرکے کشتی والوں سے وصول کرتے ہیں چاہے سال لگے۔ لیکن کشتی والے اس بات کے پابند بنائے جاتے ہیں کہ کشتی والے اپنا سارا مال سیٹھ کو دیتے ہیں، فی کلو 23روپیہ کے حساب سے جب کہ اس مال کی مارکیٹ کی قیمت 30روپیہ فی کلو ہے۔ کشتی والے یہ مال مارکیٹ میں نہیں بھیج سکتے کیوں کہ کشتی والے سیٹھ کے قرض دار ہیں جب تک قرض نہیں دیتے چاہیے سیٹھ لوگ اس کے پیچھے لاکھوں کا پیسہ کمالیں۔کشتی والے چاہے دو ہزار کلو مال لائیں یا دو سو کلو سارا مال سیٹھ کو دینے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کا ہمارے علاقہ میں ایک کاروبار چل رہا ہے تقریباً اسی فیصد کشتی والے سیٹھوں کے قرض دار ہیں کیوں کہ اکثر کشتی والوں کے پاس جال خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تووہ ان سیٹھوں سے پیسہ کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سود ہے یا کاروبار میں یہ طے کرنا صحیح ہے؟

    سوال:

    ہمارے علاقہ میں کمیشن پر اس طرح کاروبار کرتے ہیں کہ سیٹھ لوگ کشتی والوں کو کشتی کے لیے جال دلاتے ہیں اور کشتی کے لیے پٹرول وغیرہ دلاتے ہیں کشتی کا کوئی خرچہ ہوتا ہے تو سیٹھ لوگ دیتے ہیں مگر ادھار پر یعنی قرض دیتے ہیں۔ اپنا قرض تھوڑا تھوڑا کرکے کشتی والوں سے وصول کرتے ہیں چاہے سال لگے۔ لیکن کشتی والے اس بات کے پابند بنائے جاتے ہیں کہ کشتی والے اپنا سارا مال سیٹھ کو دیتے ہیں، فی کلو 23روپیہ کے حساب سے جب کہ اس مال کی مارکیٹ کی قیمت 30روپیہ فی کلو ہے۔ کشتی والے یہ مال مارکیٹ میں نہیں بھیج سکتے کیوں کہ کشتی والے سیٹھ کے قرض دار ہیں جب تک قرض نہیں دیتے چاہیے سیٹھ لوگ اس کے پیچھے لاکھوں کا پیسہ کمالیں۔کشتی والے چاہے دو ہزار کلو مال لائیں یا دو سو کلو سارا مال سیٹھ کو دینے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کا ہمارے علاقہ میں ایک کاروبار چل رہا ہے تقریباً اسی فیصد کشتی والے سیٹھوں کے قرض دار ہیں کیوں کہ اکثر کشتی والوں کے پاس جال خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تووہ ان سیٹھوں سے پیسہ کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سود ہے یا کاروبار میں یہ طے کرنا صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 10378

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 155=145/ ب

     

    اس طرح کاروبار ناجائز اور سود ہے، حدیث شریف میں آیا ہے: کل قرض جر نفعًا فھو ربا یعنی قرض کے دباوٴ میں جو نفع حاصل ہو وہ سود ہے، 30 روپے والا سامان 23 روپے میں دینا لینا جائز نہیں، یہ سات روپے کا نفع سود میں داخل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند