عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 62315
جواب نمبر: 62315
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 139-117/L=2/1437-U اس میں تو کسی کو بھی ا ختلاف نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس حالات اور سیرتِ مبارکہ کا ذکر مستحسن بلکہ افضل الاذکار اور موجب خیر وبرکت ہے بشرطیکہ دن کی تعیین وتخصیص کے بغیر ہو اور شرکت وبدعت ومکروہاتِ شرعیہ سے خالی ہو، اور روایاتِ صحیحہ بیان کیے جائیں؛ لیکن آج کل جس نوعیت سے محافلِ میلاد منعقد کی جاتی ہیں یہ امور غیر مشروعہ پر مشتمل ہوتی ہیں، روایاتِ موضوعہ منکرہ بیان کی جاتی ہیں، بیان کرنے والے اکثر غیر متشرع فساق وفجار ہوتے ہیں، اسراف وریاکاری وسمعہ مقصود ہوتا ہے، ا لتزام مالا یلزم کی حد سے گذرکر اس کو فرائض واجبات سے آگے بڑھادیا جاتا ہے، قیام بوقت ذکرِ ولادت کو ایک فریضہ شرعیہ قرار دے کر اس کے تارک کو لعن طعن کیا جاتا ہے، الغرض مروجہ مجالس میلاد بدعات وخرافات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا ہے اس لیے اس کا ترک ضروری ہے، اسی طرح اس دن عید منانا اسلامی تعلیم نہیں ہے، یہ نصاری کا طریقہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے دن عید مناتے ہیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا نہ صحابہ رضی اللہ عنہم وسلف صالحین نے اس دن کو عید کے طور پر منایا، نیز اس دن جلوس نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکلتے تھے نہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور سلف صالحین کے دور میں جلوس نکالنا، جھنڈے اور نعروں کے ساتھ سڑکوں پر چلنا یہ غیروں کا طریقہ ہے جس سے بچنے کا ہمیں حکم ہے۔ فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے متعدد فتاوی میں اس پر نکیر فرمائی ہے، ایک سوال کے جواب میں حضرت تحریر فرماتے ہیں: ”مجلس مولود مروجہ بدعت ہے اور بسبب خلط امور مکروہہ کے مکروہ تحریمہ ہے“ (رشیدیہ قدیم: ۱۱۵) ایک دوسرے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ”عقد مجلس مولود اگرچہ اس میں کوئی امرِ غیر مشروع نہ ہو مگر اہتمام وتداعی اس میں بھی موجود ہے؛ لہٰذا اس زمانہ میں درست نہیں“ (۱۱۵) جہاں تک فیوض الحرمین کی عبارت کا تعلق ہے تو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اس کا خود جواب تحریر فرمایا ہے، اسی کو نقل کیا جاتا ہے، حضرت تحریر فرماتے ہیں: ”فیوض الحرمین میں حاضری مولد النبی میں کہ مکانِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، لکھا ہے وہاں ہرروز زیارت کے واسطے لوگ جاتے ہیں یومِ ولادت میں بھی لوگ جمع تھے اور صلاة وذکر کرتے تھے نہ وہاں تداعی سے اہتمام طلب کے تھے نہ کوئی مجلس تھی بلکہ وہاں لوگ خود بخود جمع ہوکر کوئی درود پڑھتا تھا کوئی ذکر معجزات کرتا تھا نہ کوئی شیرینی نہ چراغ نہ کچھ اور نفس ذکر کو کوئی منع نہیں کرتا“ (فتاوی رشیدیہ قدیم: ۱۱۶، ۱۱۷) اور ۱۲/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانے کے عدم جواز کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول کا دن یوم ولادت کے طور پر مشہور ہے محققین کے یہاں یہ قول راجح ومختار نہیں ہے، اگر اس کا ثبوت قرنِ اول سے ہوتا تو یومِ ولادت میں کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند