• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 62211

    عنوان: یوم عاشور کو کھانا کھلانے سے متعلق سوال

    سوال: محرم کی دس تاریخ کی تخصیص کے ساتھ دسترخوان وسیع کرنا یعنی غرباء و مساکین یا اعزاء و اقارب کو کھانا کھلانا ، جبکہ اس امر کے کرنے میں کسی خلاف شرع عمل کا دخل نہ ہو اور نیت صرف اللہ کی رضا اور حصولِ ثواب ہو، تو کیا ایسا کرنا شرعًا جائز ہے ؟ کیا خاص طور پہ محرم کی دس تاریخ کو دسترخوان وسیع کرنے کی کوئی فضیلت وارد ہوئی ہے ؟

    جواب نمبر: 62211

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 83-127/Sn=2/1437-U (۱) دسویں محرم کو ثواب کی نیت سے غریبوں ومساکین کو یا اعزہ واقربا کو کھانا کھلانے کی کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی؛ ہاں وسعتِ رزق کی امید سے اپنے اہل وعیال کے لیے دسترخوان وسیع کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص وسعت رزق کی امید سے اپنے اہل وعیال کے لیے محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرتا ہے تو یہ جائز؛ بلکہ مستحسن و مندوب ہے۔ (۲) جی ہاں! بیہقی نے ”شعب الایمان (رقم: ۳۵۱۵) میں طبرانی نے ”المعجم الکبیر (رقم ۱۰۰۰۷) میں ان الفاظ کے ساتھ محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرنے کی فضیلت کے سلسلے میں حدیث وارد ہوئی ہے: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ في سائر سنتہ (شعب) لم یزل في سعة سائر سنتہ․ جو شخص عاشوراء کے دن اہل وعیال کے لیے وسعت اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لیے وسعت کرے گا۔ یہ حدیث فضائل کے باب میں قابل عمل ہے، متعدد محدثین اور شراحِ حدیث نے اس کی تصریح کی ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ ”المقاصد الحسنہ“ میں لکھتے ہیں: حدیث مَنْ وَسَّعَ عَلَی عِیَالِہِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّہ عَلَیْہِ السَّنَةَ کُلَّہَا، الطبرانی فی الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبی سعید، والثانی فقط فی الشعب عن جابر وأبی ہریرة، وقال: إن أسانیدہ کلہا ضعیفة، ولکن إذا ضم بعضہا إلی بعض أفاد قوة، بل قال العراقی فی أمالیہ: لحدیث أبی ہریرة طرق، صحح بعضَہا ابن ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزی فی الموضوعات من طریق سلیمان ابن أبی عبد اللَّہ عنہ، وقال: سلیمان مجہول، وسلیمان ذکرہ ابن حبان فی الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق عن جابر علی شرط مسلم، أخرجہا ابن عبد البر من روایة الزبیر عنہ، وہی أصح طرقہ، ورواہ ہو والدارقطنی فی الأفراد بسند جید، عن عمر موقوفا والبیہقی فی الشعب من جہة محمد بن المنتشر، قال: کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ فی جزء، قلت: واستدرک علیہ شیخنا -رحمہ اللَّہ- کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزی فی الموضوعات قول العقیلی فی ہیضم بن شداخ راوی حدیث ابن مسعود: إنہ مجہول بقولہ: بل ذکرہ ابن حبان فی الثقات والضعفاء. (المقاصد الحسنة: ۴/۶۷۵، ط: دار الکتاب العربي، ط: بیروت) اور حافظ بن حجر نے ”الأمالي المطلقة“ میں اس حدیث پر تفصیلی بحث کے ضمن میں فرمایا: ولہ شواہد عن جماعة من الصحابة․․․ منہم عبد اللہ بن مسعود وعبد اللہ بن عمر وجابر وأبوہریرة وأشہرہا عبد اللہ بن مسعود الخ (الأمالي المطلقة ۱۰/ ۲۸، ط: المکتب الإسلامي، بیروت) نیز دیکھیں: الیواقیت الغالیة (۱/۲۰۷، ط: برطانیہ) وامداد الفتاوی (۵/ ۲۸۹، ط: زکریا) وفتاوی دارالعلوم (۱۸/ ۵۳۹) واحسن الفتاوی (۱/ ۳۹۵، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند