• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 61268

    عنوان: ہمارے یہاں مردہ کے دفن کے بعد مردہ کے گھر آکے چند آدمی جمع ھوکر کنکریاں گن گن کر مردہ کے لئے کلمہ پڑتے ہیں جسکو تہلیل کہا جاتا ہے .کیا یہ بدعت ھے ؟

    سوال: ہمارے یہاں مردہ کے دفن کے بعد مردہ کے گھر آکے چند آدمی جمع ھوکر کنکریاں گن گن کر مردہ کے لئے کلمہ پڑتے ہیں جسکو تہلیل کہا جاتا ہے .کیا یہ بدعت ھے ؟

    جواب نمبر: 61268

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 991-1017/N=11/1436-U ایصال ثواب میں کسی عمل یا وقت وغیرہ کی تخصیص نہیں ہے، نیز اس میں اجتماعیت بھی مطلوب نہیں؛بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر کسی مرحوم یا مرحومہ یا زندہ کو اس کا ایصال ثواب کرسکتا ہے، اور اگر اس طرح کے کاموں میں وقت اور عمل کی تخصیص اور اجتماعیت کا اہتمام کیا جائے تو وہ بدعت ہوتی ہیں یا کچھ عرصہ کے بعد بدعت ہوجاتی ہیں؛اس لیے آپ کے یہاں تدفین کے بعد مرحوم کے گھر پہ جمع ہوکر کنکریوں پر کلمہ پڑھ کر ایصال ثواب کا جو طریقہ رائج ہے، یہ بلا شبہ امر منکر ہے، اسے آہستہ آہستہ ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور اگر لوگ اسے امر ضروری سمجھتے ہیں یا بحیثیت عبادت یہ سب اہتمام کیا جاتا ہے تو اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں، قال الشاطبي فی الاعتصام (۱: ۴۳) :البدعة طریقة فی الدین مخترعة تضاھی الشرعیة یقصد بالسلوک علیھا ما یقصد بالطریقة الشرعیة اھ وفي ص ۴۶ منہ:وقولہ فی الحد: ”تضاھی الشریعة ‘، یعنی: أنھا تشابہ الطریقة الشرعیة من غیر أن تکون فی الحقیقة کذلک، بل ھی مضادة لھا وبیان مشابھتھا لہ من أوجہ متعددة ؛منھا …… التزام العبادات المعینة في أوقات معینة لم یوجد لھا ذلک التعیین فی الشریعة الخ۔ وفي ص ۶۳، ۶۴ من المجلد الثانی منہ: ثم إذا فھمنا التوسعة فلا بد من اعتبار أمر آخر، وھو أن یکون العمل بحیث لا یوھم التخصیص بزمان دون غیرہ أو مکان دون غیرہ أو کیفیة دون غیرھا أو یوھم الانتقال من الاستحباب - مثلاً- إلی السنة أو الفرض؛ لأنہ قد یکون الدوام علیہ علی کیفیة ما فی مجامع الناس أو مساجد الجماعات أو نحو ذلک موھما لکونہ سنة أو فرضاً بل ھو کذلک ألا تری أن کل ما أظھرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وواظب علیہ فی جماعة إذا لم یکن فرضاً ……… وإنما یضر - الدوام - إذا کانت تشاع ویعلن بھا اھوفي ص ۵۳ من المجلد الثالث منہ:ومن أجل ذلک قال حذیفة رضي اللہ عنہ: کل عبادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا فإن الأول لم یدع للآخر مقالاً فاتقوا اللہ یا معشر القراء وخذوا بطریق من کان قبلکم ونحوہ لابن مسعود وأیضا وقد تقدم من ذلک کثیر اھ۔ قال في مجالس الأبرار (المجلس الثامن عشر في أوسام البدع وأحکامھا ص ۱۳۲، ۱۳۳) :وعند الاستقراء لا توجد تلک البدعة الغیر السیئة فی العبادات البدنیة المحضة کالصوم والصلاة وقراء ة القرآن وأوظاف کل منھا ؛بل لا تکون البدعة فیھا إلا سیئة؛لأن عدم وقوع الفعل فی الصدر الأول لیس إلا لعدم الحاجة إلیہ أو لوجود مانع منہ أو لعدم التنبیہ لہ أو للتکاسل عنہ أو لکراھة وعدم مشروعیة، والأولان منتفیان فی العبادات البدنیة المحضة ؛لأن الحاجة إلی التقرب إلی اللہ تعالی بالعبادة لا تنقطع، وبعد ظھور الإسلام وغلبة أھلہ لم یکن منھا مانع، وکذا عدم التنبہ لھا أو التکاسل عنھا منتف أیضاً؛إذ لا یجوز أن یظن ذلک للنبي علیہ السلام وجمیع أصحابہ، فلم یبق إلا کونھا بدعة مکروھة غیر مشروعة، وھذا المعنی أراد عبد اللہ بن مسعود لما أخبر بالجماعة الذین کانوا یجلسون بعد المغرب، وفیھم رجل یقول:کبروا اللہ کذا وکذا، وسبحوا اللہ کذا وکذا، واحمدوا اللہ کذا وکذا، فیفعلون فحضرھم، فلما سمع ما یقولون قام، فقال: أنا عبد اللہ بن مسعود فو الذي لا إلہ غیرہ لقد جئتم بدعة ظلماء أو إنکم تدارکتم علی الصحابة مافاتھم لعدم تنبھھم لہ أو لتکاسلھم عنہ فغلبتموھم من حیث العلم بطریق العبادة، والثاني منتف فتعین الأول، وھو کونہ بدعة ظلماء، وھکذا یقال بکل من أتی فی العبادة البدنیة المحضة بصفة لم تکن في زمن الصحابة إذ لو کان وصف العبادة فی الفعل المبتدع یقتضی کونہ بدعة حسنة لما وجد فی العبادات ما ھو بدعة مکروھة وقد وجد فیھا البدعة المکروھة علی ما صرح العلماء في تصانیفھم الخ۔ (ونقلہ عنہ مولانا العلامة محمد منظور النعمانی في إمعان النظر في أذان القبر، یعنی: اذان قبر کا تحقیقی جائزہ ص۱۱، ۱۲) ووقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الکراھیة، الباب الرابع فی الصلاة والتسبیح الخ ۵: ۳۱۷ ط مکتبة زکریا دیوبند) :قراء ة الکافرون إلی الآخر مع الجمع مکروھة ؛لأنھا بدعة لم تنقل عن الصحابة ولا عن التابعین رضي اللہ عنھم کذا فی المحیط اھ (ونقلہ عنہ مولانا العلامة محمد منظور النعماني في إمعان النظر في أذان القبر، یعنی: اذان قبر کا تحقیقی جائزہ ص۱۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند