عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 611451
شادی كے موقع پر تحفہ تحائف كے رواج ’’نیوتہ‘‘ كا حكم
سوال : شادیوں میں جس طرح تحفے تحائف دیتے ہیں اس طرح آج کل اکثر جگہ لوگ نندرہ دیتے ہیں یعنی لفافہ میں پیسے ڈال کر دیا جاتا ہے پھر جب دوسرے کی شادی ہوتی ہے تو یہ بھی دیتاہے، اکثر بدل کے طور پر دیا جاتاہے کہ فلاں نے دیا تھا لہٰذا میں بھی دیتا ہوں۔ اس نندرہ کا کیا حکم ہے؟
2. دوسرا یہ کہ اگر نندرہ میں بدلہ کی نیت نہ ہو بلکہ صرف تحفہ کی نیت ہو تو پھر کیا حکم ہے؟
براہِ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 611451
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1114-262T/M=09/1443
تحفہ یا ہدیہ وہ عطیہ ہوتا ہے جو دوسرے كا دل خوش كرنے كے لیے دیا جاتا ہے تاكہ اللہ تعالی كی رضامندی حاصل ہو، ہدیہ اس نیت سے دینا كہ بدلے میں وہ بھی ہدیہ دے گا یہ درحقیقت ہدیہ نہیں ہے، شادی بیاہ كے موقع پر تحفہ تحائف دینے كا جو رواج ہے ا س كو بعض علاقوں میں نیوتہ كہا جاتا ہے آپ كے یہاں لوگ اس كو نندرہ كہتے ہوں گے بہرحال جہاں ادلے بدلے میں دینے كا رواج ہو وہاں اسے ترك كرنا چاہئے كیوں كہ اس رسم كے تحت لین دین میں دینے والے كا باضابطہ رجسٹر میں نام نوٹ كیا جاتا ہے پھر وہ بھی اس كی شادی بیاہ میں اس سے زیادہ دیتا ہے كیوں كہ نہ دینے یا كم دینے كی صورت میں برا سمجھا جاتا ہے تو اس طرح یہ لین دین سود كی شكل بن جاتا ہے چنانچہ سورہ روم كی آیت: وما آتيتم من ربًا ليربو الآية كی تشریح میں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لكھتے ہیں كہ: اس آیت میں ایك بری رسم كی اصلاح كی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ كہ عام طور پر كنبہ رشتہ كے لوگ جو كچھ دوسرے كو دیتے ہیں اس پر نظر ركھتے ہیں كہ وہ ہمارے وقت میں كچھ دے گا كبھی رسمی طور پر كچھ زیادہ دے گا خصوصاً نكاح، شادی وغیرہ كی تقریبات میں جو كچھ دیا لیا جاتا ہے اس كی یہی حیثیت ہوتی ہے جس كو عرف میں ’’نیوتہ‘‘ كہتے ہیں (معارف القرآن: 6/750) تو اس رسم و رواج سے بچنا چاہئے ہاں اگر كوئی بدلہ كی نیت كے بغیر محض خوش دلی سے دیتا ہے تو ناجائز نہیں لیكن مروجہ رسم كی تائید ہوتی ہو تو اس موقع پر احتراز بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند