• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 610133

    عنوان:

    مروجہ قرآن خوانی

    سوال:

    سوال : حضرت مفتی صاحب میرے علاقہ میں مروجہ قرآن خوانی جو کہ بدعت ہے اور ہر بدعت رسومات رائج ہو چکے ہیں اور ہمارے امام صاحب اس کو منع نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ہم تو مصلحت شامل ہو جاتے ہیں تو حضرت کیا مصلحتاًشامل ہونا جائز ہے اس نے ذرا روشنی ڈالیں اور حضرت میں ایک طالب علم ہوں میں حفظ کر رہا ہوں تو حضرت میں تھوڑی بہت کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں اور آپ مجھے بتا دیں کے حضرت کیا میں بدعت کا خاتمہ کر سکتا ہوں جبکہ ہمارے امام صاحب اس چیز پر اتنا زیادہ غور نہیں کرتے اس میں شامل ہوتے ہیں اور وہ حقانیت کو بیان نہیں کرتے تو کیا ہم اس حقانیوں کو بیان کر سکتے ہیں اور حضرت ہمارے امام صاحب کہتے ہیں ہم اس میں مصلحتاً چلے جاتے ہیں تو کیا حضرت مصلحتاً جانا صحیح ہے شامل ہو جاتے ہیں تو کیا حضرت یہ صحیح ہے میں تو کہتا ہوں کہ امت کو جوڑنے کی اور بھی راستے ہیں ہفتے میں 2 گست ہوتے ہی ہے4گست کر لیں یہ ملاقات ایک وقت ہوتے ہیں ملاقات پانچ وقت کرنے لگے یہ بھی تو امت کو جوڑنے کا ایک راستہ ہے ہیں اور قرآن خوانی ایک راستہ نہیں ہے .......بعض لوگ کہتے ہیں امت میں توڑ پیدا ہوگی حضرت ہمارے یہاں کوئی بریلوی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک انسان دیوبندی ہی ہے تو حضرت اس میں توڑ کے کیا بات ہے امام جیسا عوام کو سمجھ ہے ویسے ہی عوام سمجھتی ہے اگر امام ایک کہہ دے دفعہ تو سارے لوگ مان جائیں گے لیکن حضرت امام صاحب کہتے نہیں ہیں اور ہم سے رہا جاتا نہیں ہے حضرت کیا کریں....جزاک اللہ

    جواب نمبر: 610133

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 827-208T/D=07/1443

     (1)    مروجہ قرآن خوانی‏، جس میں ایام كی تعیین و تخصیص ہوتی ہے‏، اور آنے والے شرما حضوری میں اور دباؤ میں پڑھتے ہیں‏، اور پڑھنے والے كے لئے كھانے اور ناشتہ وغیرہ كا نظم كیا جاتا ہے‏، اور اس طرح اجتماعی ایصالِ ثواب كرنے كو ضروری سمجھا جاتا ہے یہ بدعت سیئہ ہے‏، جس طرح اس كا كرنا جائز نہیں‏، اسی طرح اس میں شركت بھی ناجائز ہے‏، اسی لئے اس سے احتراز كرنا ضروری ہے۔ وفی البزازیۃ: ویكرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع‏، ونقل الطعام إلی القبر فی المواسم‏، واتخاذ الدعوۃ لقراءۃ القرآن‏، وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءۃ سورۃ الأنعام والإخلاص‏۔ والحاصل: أنہ اتخاذ الطعام عند قراءۃ القرآن لأجل الأكل یكرہ۔ (شامی: 1/664) وفی الشامیۃ: ویكرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وھي بدعۃ مستقبحۃ (شامی: 1/664)

    (2)  مصلحتاً شامل ہونے سے بچنا چاہئے تاكہ عوام گمراہی میں نہ پڑے۔

    (3)  آپ كا جذبہ نیك ہے‏، بدعت سے خود بھی پرہیز كرنا ضروری ہے‏، اور حتی الامكان دوسروں كو بھی بچانا چاہئے‏، لیكن ابھی آپ طالب علم ہیں‏، اس لئے اپنے اس نیك جذبات كے ساتھ كسی عالم دین كی صحبت اختیار كریں اور ان كے مشورہ سے شرك و بدعت پر مشتمل كتابوں كا مطالعہ كریں‏، اور اپنے اندر تدین (پختہ دینداری) پیدا كریں‏، پھر وقت آنے پر ان شاء اللہ آپ كے ذریعے سنت كی ترویج اور بدعت كا خاتمہ ہوگا۔

    (4)  لوگوں كو دین سے جوڑنے كے لئے وہی طریقہ اختیار كرنا چاہئے جو سنت و شریعت سے ثابت ہے‏، قرآن خوانی كا مروجہ طریقہ شریعت سے ثابت نہیں ہے اس لئے اس سے احتراز كرنا چاہئے‏، بالخصوص امام صاحب كو چاہئے كہ لوگوں كو ایصالِ ثواب كا صحیح طریقہ سمجھائیں‏، (یعنی انفرادی طور پر جس سے جس قدر ہوسكے قرآنِ پاك‏‏، كلمہ طیبہ‏، درود شریف وغیرہ پڑھ كر‏، یا صدقہ و خیرات كے ذریعے ایصالِ ثواب كردیں)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند