• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 609774

    عنوان:

    قرآن خوانی سے متعلق چند سوالات

    سوال:

    قرآن خوانی کا مروجہ طریقہ یعنی طلبہ کا کسی گھر، دکان میں جاکر اجتماعی طور پر قرآن پڑھنا اور دعا کرنا بعدہ ناشتہ وغیرہ کا نظم، یہ شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے ؟ قرآن خوانی کے بعدشرطیہ طور پر یا بغیر شرط کے بچوں کے لیے کچھ پیسے لینا یا مدرسے کے لیے رسید کٹانے کو کہنا از روئے شرع کیسا ہے ؟ اور اگر قرآن خوانی کے لیے طلبہ کا استعمال تعلیمی اوقات میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ?نیز وہ علاقے جہاں ارباب مدارس سے لوگ قرآن خوانی کا آئے دن مطالبہ کرتے ہیں تو ارباب مدارس کا کیارد عمل ہونا چاہئے؟ براہ کرم بیان فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں ۔

    جواب نمبر: 609774

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 482-197/D-Mulhaqa=7/1443

     (۱) مروجہ قرآن خوانی جس میں اجتماع کا التزام کیا جاتا ہے، قرآن پڑھنے والوں کو اجرت دی جاتی ہے، ناشہ پانی کرایا جاتا؛بدعت اور ناجائز ہے، ایسی قرآن خوانی میں جمع ہوکر پڑھنے اور پڑھوانے والوں کو کچھ ثواب نہیں ملتا تو دوسروں کو ثواب کیسے پہنچے گا، ایسی قرآن خوانی میں مدارس کے طلبہ کو تو خاص طور پر شرکت نہیں کرنی چاہیے ،واضح رہے کہقرآن خوانی میں جو رقم دی جاتی ہے، عرف کی وجہ سے وہ بحکم اجرت ہی ہوتی ہے،صراحتا شرط نہ بھی لگائی جائے تب بھی المعروف کالمشروط کے تحت اجرت لینا درست نہیں ہوگا،ا یصال ثواب کی بہتر صورت یہ ہے کہ انفرادی طور پر جس وقت چاہے اور جتنا چاہے، قرآن کریم پڑھ کر یا نفلی صدقہ کرکے مرحوم کو بخش دیا جائے، اس طرح ایصال ثواب میں نہ لوگوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے نہ کھانے ناشتہ وغیرہ کا انتظام کرنے کی حاجت ہے، جب مدرسہ والوں سے قرآن خوانی کا تقاضا کیا جائے تو ان کو چاہیے کہ ایصال ثواب کا صحیح طریقہ بتادیں۔

    قال ابن عابدین: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.۔ ۔۔( رد المحتار مع الدر المختار: ۶/۵۶،۵۷ دار الفکر، بیروت۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند