• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 604169

    عنوان:

    بدعت كے ارتكاب كے اندیشہ كی وجہ سے مسجد نہ جانا

    سوال:

    بعد از سلام عرض ہے کہ میری دادی امی کے جنازے کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہو سکی اور حیلہ رکن (جس کا مجھے علم بھی نہیں)ادا نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے لوگ ہم سے متنفر ہو گے تھے اور میرے والد چونکہ محلے کی مسجد کے امام تھے لہذا ان سے ہمارے قریبی رشتہ دار قطعہ تعلق کر گے مگر میرے والد صاحب نے معزرت کر کے جان بخشی کروائی اب چونکہ وہ ازان سے پہلے درود و سلام نہیں پڑھتے تھے اب محلے ولوں نے اس پہ بھی راضی کر لیا ہے ، لہذا میں نے اس مسجد کا رخ چھوڑ دیا ہے اور نماز گھر میں ہی ادا کرتا ہوں اس خدشے کے ساتھ کہ کہیں میں بھی انہی کی طرح بدعات کا شکار ہو جاؤں۔

    جواب نمبر: 604169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:701-568/N=9/1442

     اگر آپ کے محلے کی مسجد پر اہل بدعت کا تسلط ہے یا ہوگیا ہے تو آپ قریبی محلہ میں اہل حق کی کسی مسجد میں جاکر نماز باجماعت ادا کرلیا کریں، حتی الامکان مسجد کی جماعت ترک نہ کریں۔

    ( وإن صلی ) أحد (في بیتہ بالجماعة ) حصل لھم ثوابھا وأدرکوا فضلھا، ولکن ( لم ینالوا فضل الجماعة ) التي تکون ( فی المسجد) لزیادة فضیلة المسجد و تکثیر جماعتہ وإظھار شعائر الإسلام، (وھکذا فی المکتوبات) أي: الفرائض لو صلی جماعة فی البیت علی ھیئة الجماعة فی المسجد نالوا فضیلة الجماعة، وھی المضاعفة بسبع وعشرین درجة، لکن لم ینالوا فضیلة الجماعة الکائنة فی المسجد،فالحاصل أن کل ما شرع فیہ الجماعة فالمسجد فیہ أفضل لما اشتمل علیہ من شرف المکان وإظھار الشعائر وتکثیر سواد المسلمین وائتلاف قلوبھم۔ وینبغي أن یقید ھذا بما إذا تساوت الجماعتان فی استکمال السنن والآداب إلخ (غنیة المستملي، ص: ۴۰۲، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند