عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 36497
جواب نمبر: 36497
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 422=226-3/1433 عورتوں کا زیارت قبور کے لیے دور دراز سفر کرکے مزارات یا درگاہوں پر جانا جائز نہیں، کیوں کہ وہاں مردوں وعورتوں کا اجتماع ہوتا ہے، نیز عورتیں وہاں جاکر وہاں ہورہے افعالِ شرکیہ وغیرہ سے متأثر ہوکر بسا اوقات خود بھی افعالِ شرکیہ ومحرمہ کرلیتی ہیں؛ اس لیے عورتوں کے لیے مزارات ودرگاہوں وغیرہ کے سفر کی اجازت نہیں، مردوں کا مزاروں ودرگاہوں وغیرہ کی زیارت کے لیے سفر کرنا ممنوع نہیں ہے، زیارتِ قبور فی نفسہ مباح ہے، البتہ مزاروں یادرگاہوں پر جاکر سنت کے مطابق ایصالِ ثواب وغیرہ کرکے چلے آنا چاہیے، زیارت قبور کا طریقہ یہ ہے کہ جب قبرستان میں داخل ہو تو ”السلام علیکم اہل الدیار من الموٴمنین والمسلمین وإنا إن شاء اللہ بکم للاحقون، نسأل اللہ لنا ولکم العافیة“ پڑھے۔ (مشکاة شریف: ۱۵۴، باب زیارة القبور) پھر قرآن شریف میں سے جو آسان ہو، سورہٴ فاتحہ، سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیتیں ”مفلحون“ تک، آیت الکرسی، وآمن الرسول، وسورہٴ یسین، وتبارک الملک، وسورة التکاثر، والإخلاص اثني عشر مرة أو عشرا أو سبعا أو ثلاثا ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم“ (شامی: ۳/۱۵۱، ط: زکریا دیوبند) ۔مزارات پر جاکر وہاں ہورہے افعالِ شرکیہ میں حصہ لینا یا وہاں اپنے نفع ونقصان کے لیے جانا، اور ان کی روحوں کو اپنے افعال واحوال پر مطلع جان کر ان کی قبر کے سامنے عاجزی وانکساری کرکے مرادیں مانگنا وغیرہ ناجائز وحرام ہیں، عورتیں مدینہ منورہ میں روضہٴ اقدس پر حاضر نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ مواجہہ شریف کے پاس کھڑی ہوکر سلام وغیرہ پڑھتی ہیں؛ بلکہ وہ مسجد نبوی کے ایک حصہ میں جو عورتوں کے لیے خاص ہے، عبادت کرکے چلی آتی ہیں، نیز وہاں مرد وزن کا اختلاط بھی نہیں رہتا ہے، اس لیے ان کا مزاروں پر جانے کے لیے استدلال کرنا درست نہیں۔ مزار پر کتبہ لگانا یا اس پر لکھنا درست نہیں۔ عن جابر رضي اللہ عنہ قال: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن تجصص القبور وأن یکتب علیہا وأن یبنی علیہا وأن توطأ (رواہ الترمذی: ۱/۲۰۳) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر پر گنبد خضراء سے جواز پر استدلال نادرست ہے۔ کیوں کہ حجت کسی بادشاہ وغیرہ کا قول وفعل نہیں بلکہ حجت تو شارع علیہ الصلاة والسلام کا قول وفعل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند