• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 3304

    عنوان:

    کھانے پر فاتحہ پڑھنا بدعت کیوں؟ صحیح بخاری میں روایت میں جومود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا رکھاگیا، ام سلیم رضی اللہ عنہانے بھیجاتھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا سامنے رکھ کے کچھ پڑھنا شروع کیا اورساتھ ہی یہ روایت میں ملتی ہے کہ جو کھانا لائے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صحابہ کرام کو بلالائیں اور وہ تھو ڑا سا کھانا فاتحہ سے کثیر صحابہ کرام کو کفایت کرگیا۔۔۔۔؟

    سوال:

    کھانے پر فاتحہ پڑھنا بدعت کیوں؟ صحیح بخاری میں روایت میں جومود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا رکھاگیا، ام سلیم رضی اللہ عنہانے بھیجاتھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا سامنے رکھ کے کچھ پڑھنا شروع کیا اورساتھ ہی یہ روایت میں ملتی ہے کہ جو کھانا لائے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صحابہ کرام کو بلالائیں اور وہ تھو ڑا سا کھانا فاتحہ سے کثیر صحابہ کرام کو کفایت کرگیا۔

     شاہ عبدا لعزیز رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے کہ آپ ہر سال حضور علیہ السلام کی میلاد شریف کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پر فاتحہ پڑھتے تھے ۔ ایک بار زیادہ اسباب نہ ہونے کی وجہ سے کچھچنوں پر فاتحہ دی تو خواب دیکھاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان چنوں کو تناول فرمارہے ہیں۔ اسی طرح مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے کہ آپ کھانے پر فاتحہ دیاکرتے تھے اورآل و احباب کے ساتھ مخصوص کرتے تھے۔ ایک خواب میں حضور کو دیکھا کہ فقیر سلام عرض کرتاہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم توجہ نہیں فرماتے اورچہرے اقدس دوسری طرح پھیرے ہوئے ہیں اسی درمیان فقیر سے یہ فرماتے ہیں: ” میں کھانا عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کھاتاہوں جو مجھے کھانا بھیجے عا ئشہ کے گھر بھیجے“ اسی قت فقیر نے سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم توجہ کا سبب یہ تھا کہ فقیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس کھانے میں شریک نہیں کرتاتھا، اس کے بعد سے حضرت عائشہ صدیقہ کو بلکہ تمام ازواج مطہرات کو جو سب کے سب اہل بیت ہیں، شریک کرتاتھا اور تمام اہل بیت کے ساتھ توسل کرتاتھا۔

    جواب نمبر: 3304

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 208/ ج= 204/ ج

     

    فاتحہ کا جو طریقہ مروج ہے یہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ خلفائے راشدین کے زمانے میں، یبلکہ اس کا وجود تینوں قرون میں جن کے بھلائی کی شہادت دی گئی ہے، منقول نہیں۔ کسی بھی کتب حدیث سے اس کا ثبوت نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جو کچھ پڑھنا چاہیں، پڑھ کر اس کا ثواب میت کو پہنچادیں اور کھانے کو صدقہ کی نیت سے فقراء کو کھلادیں اوراس کا ثواب مردوں پہنچادیں۔ اب جس طرح فاتحہ رائج ہے وہ بدعت اور گناہ ہے۔ جو روایت بخاری کی آپ نے نقل کی ہے اسی طرح بزرگوں کے جو واقعات پیش فرمائے ہیں، ان کو باحوالہ لکھئے۔ (رشیدیہ:۱۵۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند