عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 30867
جواب نمبر: 30867
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د):560=124-3/1432
عید میلاد النبی کا تصور خیر القرون اور بعد کے زمانہ تک نہیں تھا، بارہ ربیع الاول کو محفل میلاد منعقد کرنا جس میں ضعیف، موضوع روایات پڑھی جائیں، نعت گوئی کی محفل امرد لڑکوں سے منعقد ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک پر کھڑے ہوں اور حاضر وناظر کا عقیدہ ہو تو یہ امور بدعت وناجائز ہیں۔ ان کا ترک کرنا ضروری ہے، علمائے دیوبند نے اس کی اول روز سے مخالفت کی ہے، کبھی بھی اس طرح عید میلاد النبی منانے کو جائز نہیں لکھا، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمہ اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی نور اللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں اس پر سخت نکیر کی ہے اور اس کو بدعت مکروہ ناجائز لکھا ہے، نبی کریم علیہ السلام کی یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے بارہ ربیع الاول، بعض نے آٹھ ربیع الاول بعض نے کوئی اور تاریخ بتلائی ہے، بارہ ربیع الاول معروف ومشہور ہے مگر یہ راجح نہیں، جمہور محدثین اورموٴرخین کے نزدیک رراجح اور مختار قول آٹھ ربیع الاول کا ہے، عبد اللہ بن عباس اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے، اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے (زرقانی: ۱/ ۱۳۱، بہ حوالہ سیرت المصطفیٰ: ۱/۵۱) حتی کہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ”رحمة للعالمین“ میں بارہ ربیع الاول کے قول کو غیرمعتبر کہا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ولادت کی یہ تاریخ ممکن ہی نہیں۔ یوم وفات کے بارے میں اتفاق ہے کہ ماہ ربیع الاول بروز دوشنبہ کو ہوئی ہے، البتہ تاریخ میں اختلاف ہے، مشہور قول کی بنا پر بارہ ربیع الاول کو وفات ہوئی ہے، موسیٰ بن عقبہ، لیث بن سعد، خوارزمی علیہم الرحمة نے یکم ربیع ااول کو مانا ہے، کلبی اور ابومخنف نے دو ربیع الاول کو۔ علامہ سہیلی رحمہ اللہ نے روض الانف میں اور حافظ عسقلانی نے شرح بخاری میں اسی قول کو مرجوح قرار دیا ہے۔ شیعہ حضرات کس حدیث سے استدلال کرتے ہیں انھیں سے لکھواکر وہ احادیث باحوالہ ہمیں ارسال کریں، پھر ان روایات کے متعلق کچھ لکھا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند