• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 177707

    عنوان: درگاہ كی قبر کو پختہ بنانا یا اس پر گنبد وغیرہ بنانا

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں، ایک دگارہ ہے جس کی کوئی معتبر اسناد نہیں ہے کہ کب سے ہے، کون ہے ، نا ہی ان کو کوئی نام ہے ، بس جیلانی سیلانی نام سے مشہور ہے، کوئی مزار ہے ، کوئی کہتاہے کہ چلہ ہے، زیاددہ مشہور چلہ کے نام سے ہے، کیوں کہ اسی نام سے کئی جگہوں پر چلہ اور مزارات موجود ہیں، خود درگاہ ٹرسٹ کے پاس کوئی سند نہیں ہے، ہر سال جب ہولی کا دن آتاہے تو اس درگاہ میں صندل اور عرس منا یاجاتاہے ، کیوں کہ عرس کی کوئی صحیح تاریخ اور سند نہیں ہے، اس درگاہ کو جب بنایا گیا تھا تب اس پر نا کوئی گنبد تھا نہ ہی کوئی مینار، اور آج بھی درگاہ کی عمارت ویسی ہی ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسی شکل پہلے سے ہے ویسی ہی بنائی جائے، صرف چھت اور زمین بنائی جائے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسی پہلے سے ہی ویسی ہی بنائی جائے، اس میں انتشاراور فساد کا اندازہ ہے، کیوں کہ درگاہ سے لگ کر بڑی جامع مسجد ہے، ابھی سب ٹھیک ہے، مگر درگاہ اچھی اور خوبصورت بننے ک ے بعد وہاں اور بھی خرابیوں اور مفاسد ہوں گے، کیوں کہ وہاں پر عورتوں کا آجانا زیادہ ہوتاہے ، ایسی صورت میں شرعی حل کیا ہے؟ صحیح رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا، آمین ثم آمین۔

    جواب نمبر: 177707

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1207-934/H=10/1441

    اگر قبر کا ثبوت بھی ہو تب بھی قبر کو پختہ بنانا یا اس پر عمارت گنبد وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیں، حدیث شریف میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ فی الحال اس جگہ میں کچھ نہ بنائیں، یوں ہی پڑی رہنے دیں، پھر کسی موقعہ حکمت و نرمی کے ساتھ اس جگہ کو مسجد کی عمارت میں شامل کرکے مصالح مسجد کے لئے اس کو مختص کرلیں تو بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند