• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 160742

    عنوان: ولیمہ میں عقیقہ کے لیے یا صرف ولیمہ کے لیے قرض لے کر خوب دھوم دھام کی دعوت کرنا

    سوال: جناب شہر شولاپور مہاراشٹرومضافات میں ہم ایک زمانے سے دیکھتے آتے ہیں کہ شادی کے دن لڑکی کے والدین (بیشتر تو قرض لے کر) شادی کے دن اپنے اور لڑکے کے رشتہ دار جو قریبا" ۱۰۰۰ سے زیادہ بھی ہو جاتے تھے ان کو کھانا کھلاتے تھے بیدار علما کی جانب سے اور خاص کر تبلیغ جماعت کے مساجد میں اعتراض ہونے پر مجودہ حالات میں یہ دین میں یہ گنجایش نکالی گئی ہے کہ شادی کے دن لڑکی یا گھر کے کسی فرد یا افراد کا عقیقہ کیا جاتا ہے اور اسی شان و شوکت سے بلکہ پہلے سے زیادہ شاندار طریقے سے کھانے کا انتظام و اہتمام کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح شادی کے دن عقیقہ کی گنجائش اسلام میں موجود ہے ؟ جبکہ اس دن عقیقہ کرنے کے لئے بھی بیشتر والدین اہتمام سے قرض لیتے ہیں۔ جبکہ کارڈ میں عقیقہ کا ذکر نہیں ہوتا ہے ۔

    جواب نمبر: 160742

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:844-721/N=8/1439

     شادی کے موقعہ پر کسی بچہ یا بچی کا عقیقہ کرنا اور ولیمہ میں عقیقہ کا گوشت استعمال کرنا جائز ہے، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں؛ کیوں کہ قربانی کی طرح عقیقہ کا گوشت عقیقہ کرنے والے کی ملک ہوتا ہے، وہ خود بھی کھاسکتا ہے اور مہمانوں کو بھی کھلاسکتا ہے(مستفاد: فتاوی دار العلوم دیوبند: ۱۵/ ۵۷۵، جواب سوال: ۲۴۷، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)؛ البتہ ولیمہ جو سنت ہے، اس کے لیے شریعت میں لمبی چوڑی پر تکلف دعوت شرط نہیں ہے، صحیح بخاری میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج مطہرات کے نکاح میں صرف دو مد ( نصف صاع، یعنی: ایک کلو، ۶۳۳/ گرام) جو سے ولیمہ فرمایا؛ اس لیے ولیمہ صرف حسب استطاعت کرنا چاہیے اور اس کے لیے لوگوں سے قرض لے کر اپنے کو پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اور عقیقہ مستحب ہے، اس کے لیے دعوت ضروری نہیں، اگر جانور ذبح کرکے گوشت تقسیم کردیا جائے تو بھی عقیقہ ہوجائے گا؛ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ ولیمہ میں عقیقہ کا گوشت استعمال کریں؛ لیکن پر تکلف دعوت کے لیے قرض لینے کی زحمت نہ کریں۔ اسلام میں دوسروں کو دیکھا دیکھی یا رسومات کی رعایت میں اپنے آپ کو تکلیف ومشقت اور پریشانی میں ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔

    عن صفیة بنت شیبة قالت: أولم النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی بعض نسائہ بمدین من شعیر (الصحیح للبخاري، کتاب النکاح، بابمن أولم بأقل من شاة، ص: ۲۷۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ذھب الفقہاء(الحنفیة والمالکیة والشافعیة والحنابلة) إلی أنہ لا حد لأقل الولیمة، وتحصل السنة بأي شیٴ أطعمہ ولو بمدین من شعیر لما فی الصحیح” أولم صلی اللہ علیہ وسلم علی بعض نسائہ بمدین من شعیر“، ونقل عیاض الإجماع علی أنہ لا حد لأقل الولیمة وأنہ بأي شیٴ أولم حصلت السنة (الموسوعة الفقہیة، ۴۵:۲۵۰، ط: الکویت)،ولو دعا إلیہا قوماً جاز (إعلاء السنن، باب أفضلیة الشاة فی العقیقة، ۱۷:۱۲۰، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وَإِنْ طَبَخَہَا، وَدَعَا إخْوَانَہُ فَأَکَلُوہَا فَحَسَنٌ․(أوجز المسالک، کتاب العقیقة/باب العمل فی العقیقة ۱۳:۱۹۸)، قال فی البدائع:والأفضل أن یتصدق بالثلث ویتخذ الثلث ضیافةً لأقربائہ وأصدقائہ ویدخر الثلث․ویستحب أن یاکل منہا، لو حبس الکل لنفسہ جاز؛ لأن القربة فی الاراقة والتصدق باللحم تطوع․(رد المحتار، کتاب الأضحیة، ۹:۴۷۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند