عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 157257
جواب نمبر: 157257
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:376-39T/L=4/1439
عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ تابعین ،تبع تابعین اورائمہ متبوعین رحمہم اللہ سے نہیں ملتا ، محفلِ میلاد کا سلسلہ چھ صدی گذرنے کے بعد سلطان اربل کے زمانہ سے شروع ہوا ہے ، جیساکہ تاریخ ابن خلکان میں ہے ، اور اسی وقت سے علماء حق اس کی تردید کرتے آرہے ہیں،میرے علم کے مطابق مذکورہ بالا مشائخ سے بھی اس طرح عید میلادالنبی منانا ثابت نہیں،بعض بزرگوں سے اس دن ایصالِ ثواب یا دیگر اعمالِ خیرکرکے اس کا ثواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا منقول ہے ؛لیکن اولاً یہ ان کا اپنا انفرادی عمل ہے ،ثانیاً ان حضرات نے بھی میلاد النبی کا جشن منانے کو یا مروجہ طریقے پر عید میلاد النبی کرنے کو جائز نہیں فرمایا؛اس لیے خاص بارہ ربیع الاول کے دن عید منانے سے احترازضروری ہے ،اس کے علاوہ دوسرے ایام میں حدود وقیود کے بغیرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس حالات اور سیرتِ مبارکہ کا ذکر کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور افضل الاذکار ہے۔ قال فی الشرعة الالہیة: إن عمل المولود بدعة لم یقل بہ ولم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء والأئمة (الشرعة الإلٰہیة، بحوالہ کفایت المفتی: ۱۵۷/۱)
المولود الذی شاع فی ہٰذا العصر وأحدثہ صوفی فی عہد سلطان أربل ۶۰۰ہ ولم یکن لہ أصل من الشریعة الغراء۔ (العرف الشذی دیوبند ۲۳۱/۱)
واعلم أن القیام عند ذکر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بدعة لا أصل لہ فی الشرع وأحدثہ ملک الأربل کما فی تاریخ ابن خلکان أنہ کان یعقد لہ مجالس ویصرف علیہا أموالاً وقد ألف ابن دحیة الغربی کتابًا فی المیلاد (فیض الباری:۱۱۳/۳)
وفی المدخل: ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ فی شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جمة (المدخل: ۳/۲، ط: مصر)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند