• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 151011

    عنوان: باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

    سوال: کیا مذکورة ذیل باتوں سے عید میلاد النبی کے جواز کو ثابت کرنا صحیح ہے اور کیا مذکورہ ذیل باتیں صحیح ہے ؟ ترمذی شریف میں باب "باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:" امام ترمذی نے الجامع ترمذی شریف میں "باب ماجاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" ایک باب باندھا ہے ۔ تب تک میلاد النبی منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا بدعت کا بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد میلادالنبی منانے کا رواج پڑا۔ جبکہ امام ترمذی 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور 279 میں فوت ہوئے ۔"

    جواب نمبر: 151011

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 794-740/sd=8/1438

     

    امام ترمذی علیہ الرحمة نے جو باب باندھا ہے، اس کا مروجہ میلاد سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، مروجہ میلاد بعد کی ایجاد ہے، امام ترمذی کے باب سے مروجہ میلاد پر استدلال کرنا قطعا غلط ہے۔ قال المقریزي رحمہ اللہ: الموالد أحدثت في القرن الرابع الہجري، وأول من أحدثہا العبیدیون الذین حکموا ”مصر“ في القرن الرابع الہجري․․․ إنہم أحدثوا ستة موالید: میلادُ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ومیلاد علي رضي اللہ عنہ، ومیلاد فاطمة رضی اللہ عنہا، ومیلاد الحسن رضي اللہ عنہ، ومیلاد الحسین رضي اللہ عنہ، والسادسُ: میلاد الحاکم الموجود من حکّامہم، فإذن ہذہ الاحتفالات وتخصیص تلک المناسبات بأعمال مخصوصة؛ ہذا ما حصل في القرن الثلاثة الأول التي ہي خیر القرون التي قال فیہا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم: خیر القرون قرني، ثم الین یلونہم، ثم الذین یلونہم، الصحابة لا یوجد عندہم ہذا الاحتفال بالموالد، والتابعون کذلک، وأتباع التابعین کذلک، ثلاث مأة سنة کاملة لا یوجد فیہا ہذا الشيء؛ وإنما أحدثہ العبیدیون المتسَمّون زورا ب”الفاطمیین“ الذین حکموا ”مصر“ (ملخصا من کتاب المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار المعروف ب”الخطط المقریزیة“: ۴۳۶۲، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعة الأولی: ۱۴۱۸ھ/ ۱۹۹۷ء)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند