• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 146560

    عنوان: قبروں پر پھول ڈالنے كے سلسلے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ كا نظریہ

    سوال: بریلوی قبروں پہ پھول ڈالنے پر امام ابن حجر عسقلانی کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں: امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: أن المعنی فیہ أنہ یسبح ما دام رطبا فیحصل التخفیف ببرکة التسبیح وعلی ہذا فیطرد في کل ما فیہ رطوبة من الأشجار وغیرہا وکذلک فیما فیہ برکة کالذکر وتلاوة القرآن من باب الأولی․ مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنا بریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولی باعث برکت وتخفیف ہیں، وہو اولی أن سنتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے۔ (عسقلانی، فتح الباری: ۱/ ۳۲۰، دار المعرفة بیروت) برائے مہربانی اسکا جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146560

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 241-234/L=3/1438

     

    قبروں پر پھول ڈالنے کی رسم بے اصل اور بدعت ہے شرعاً اس کا ثبوت نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین یا ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں سے کسی سے پھول چڑھانا ثابت نہیں او رنہ ہی کسی متداول کتب فقہ میں اس کا تذکرہ ملتا ہے حدیث میں وارد الفاظ سے بھی پتہ چلتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں قبروں پر ٹہنیاں رکھنا انہیں کے ساتھ خاص تھا مسلم شریف کی روایت میں ہے: احببت بشفاعتی أن یرفہ ذلک عنہما مادام الغصنان رطبین۔ (مسلم: ۲/۴۱۸) یعنی میں نے ان کے لیے سفارش کی ہے میری سفارش مطلقا تو قبول نہیں کی گئی مگر مقید قبول کرلی گئی ہے جب تک یہ ٹہنیاں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا معمول قبروں پر ٹہنیاں رکھنے کا نہ تھا علاوہ ازیں اگر پھول چڑھانے سے مقصود عذاب میں تخفیف ہے تو اس کے مستحق امواتِ فساق و فجار ہیں نہ کہ اولیاء اللہ اور مقربین خدا جیسا کہ اس کا رواج ہے، نیز حدیث میں ٹہنی کا ذکر ہے نہ کہ پھول وغیرہ کا حالانکہ اہلِ بدعت پھول چڑھاتے ہیں۔ قال العیني: ان إلقاء الریاحین لیس بشيء ۔ (فیض الباری: ۲/۴۸۹) قلت: وان کانوا یدعون اتباع الحدیث فعلیہم أن یصنعوا الجرائد دون الریاحین، وعلی المعذ بین دون الممقربین؛ لأن الحدیث انما ورد فی المعذبین۔ (البدر الساری علی حاشیہ فیض الباری: ۱/۳۱۱، باب من الکبائر) جہاں تک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے سوال میں مذکور عبارت کا تعلق ہے تو خود حافظ ابن حجر نے ”قیل“ سے اس کو بیان کیا ہے جو اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء محققین مثل علامہ خطابی قاضی عیاض وغیرہ نے اس کو عام حکم ماننے سے انکار کیا ہے اور ٹہنی رکھنے پر عذاب میں تخفیف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کی برکت کے ساتھ خاص قرار دیا ہے حافظ ابن حجر کی پوری عبارت اس طرح ہے: وقال الخطابی ہو محمول علی أنہ دعا لہما بالتخفیف مدة بقاء النداوة لا أن فی الجریدة معنی یخصہ ولا أن فی الرطب معنی لیس فی الیابس قال وقد قیل: ان المعنی فیہ أنہ یسبح مادام رطباً فیحصل التخفیف ببرکة التسبیح، وعلی ہذا فیطرد فی کل ما فیہ رطوبة من الأشجار وغیرہا وکذالک ․․․․․․وقد استنکر الخطابی ومن تبعہ وضع الناس الجریدة ونحوہ فی القبر عملاً فہذا الحدیث۔ (فتح الباری: ۱/۳۸۳) صاحب معارف السنن اس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: وقیل: لکونہما یسبحان ماداما رطبتین، وضعف بأن التسبیح لایختص بالرطب بل یعم الرطب والیابس، وإلی عمومہ ذہب المحققون فی قولہ تعالیٰ: ”وان من شیٴ الا یسبح بحمدہ“ کما حققہ الرازی فی تفسیرہ۔ (معارف السنن: ۱/۲۶۴) وقال قال الراقم: اتفق الخطابی والطرطوسی والقاضی عیاض علی المنع، وقولہم: أولی بالاتباع حیث أصح تلک المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرة والفتن السائرة، فتری العامة یلقون الزہور علی القبور وبالأخص علی قبور الصلحاء والأولیاء والجہلة منہم ازدادوا اصراراً علی ذالک۔ (معارف السنن: ۱/۲۶۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند