• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 69865

    عنوان: غیراداشدہ وراثتی جائیداد کی تقسیم

    سوال: گذارش ہے کہ بندہ کے دادا رحمت خان نے 1947 کی ہجرت کے بعد پاکستان آنے پر اپنی انڈیا میں موجود آبائی زمین کا کلیم (دعوی)حاصل کیا- کلیم حاصل کرنے کے وقت زمین کے حقداران میں رحمت خان کے بھائی کے بیٹے یعنی بھتیجے ، اور تین بہنیں زندہ تھیں ۔ باقی سب بہنیں دادا کے والد صاحب کی وفات سے قبل ہی وفات پا چکی تھیں۔ 1: رحمت خان کے بڑے بھائی عظمت خان کو اس کا باپ بوجہ نافرمانی (عقدثانی بلا رضامندیئوالد) اپنی جائیداد سے عاق کر چکا تھا لیکن رحمت خان نے اپنے بڑے بھائی کی اولاد کو زمین کا کافی حصہ دے دیا، جس کی تفصیل معلوم نہیں کہ کس بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ 2: اُس کے بعد رحمت خان کے پاس جو زمین تھی اُس میں سے ایک بہن (م) کو رحمت خان ساری عمر گاہے بگاہے رقم ادا کرتے رہے ، اور بعد ازاں اس نے اس معاہدے کے تحت اپنے حصے کی زمین رحمت خان کے نام کروا دی کہ اس کے مختلف بیٹوں میں سے فلاں بیٹے کو ایک مقررہ رقم ادا کر دی جائے گی، اور اس معاہدے پر عمل کر دیا گیا۔ 3: دوسری بہن (ق) جو کہ بقید حیات ہیں، کا حصہ رحمت خان نے اپنی بہن کی رضامندی سے اُس کی واحد زندہ اولاد (اپنی بھانجی ) کے نام کروا دیا۔ 4: تیسری بہن (الف) وفات پاچکی ہیں اور انکا حصہ انہیں یا ان کی اولاد کو ادا نہیں کیا گیا الف کی اولاد نے پہلے رحمت خان کو اپنی ماں کا حق معاف کرنے کا وعدہ کیا لیکن بعد ازاں اپنے حصے کا مطالبہ دوہرایا رحمت خان کو قبل از مرگ احساس ہوا کہ الف کا حصہ اُنکی اولاد کو ادا کیا جانا چاہئے اور انہوں نے مرنے سے قبل اپنے پوتوں کو وصیت کی کہ اُنکا حصہ ادا کر دیویں، لیکن اُنکا حصہ کتنا ادا کرنا ہے ، اس بارے میں وہ کبیر سنی کے سبب کچھ راہنمائی نہیں کرسکے ۔ یاد رہے کہ کلیم کی مکمل زمین یونٹوں کے نظام کے تحت حاصل کی گئی تھی، جس کے تحت ٹوٹل کلیم کو یونٹوں میں تبدیل کرکے مدعی کو اپنے پسندیدہ علاقے میں زمین حاصل کرنے کا حق دیا جاتا تھا ، اور ہر علاقے کا ریٹ مختلف تھا ، اور رحمت خان نے تین مختلف علاقوں میں زمین حاصل کی۔اورچونکہ ابھی کسی کو معلوم نہیں کہ کلیم میں کُل کتنے یونٹ تھے ، اس لئے کچھ حساب لگایا جانا مشکل ہے کہ تمام پانچ بہن بھائیوں کے حصے کے کتنے یونٹ بنتے تھے اور اُس حساب سے کتنی زمین ہر ایک کے حساب میں آتی تھی، کس کس کو جائز طریقے سے ادا کی گئی اور الف کی اولاد کو کتنی ادا کی جانی چاہئے ۔ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیے کہ ان تمام پیچیدگیوں کے مد نظر الف کی اولاد کو زمین کی ادائیگی کیسے کی جائے ۔اور آیا کہ عاق ہونے کے بعد عظمت خان کی اولاد کا حق بنتا تھا یا نہیں، اور یہ کہ الف کو ادائیگی صرف رحمت خان کی اولاد کے ذمہ ہے یا کہ عظمت خان کی اولاد کے ذمہ بھی۔بہت زیادہ الجھن ہے لیکن کوئی حل نظر نہیں آرہا ۔ آپ کی راہنمائی ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہ ہوگی اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہماری اس الجھن کو حل فرمائیں اور ہمارے ذمہ جو حقداران کا حق ہے اُسے ادا کرنے میں ہماری مدد فرمائیں- شکریہ

    جواب نمبر: 69865

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1036-187/D=12/1437 (۱) کسی اولاد کو عاق کرنے کی وجہ سے وہ اولاد وراثت سے محروم نہیں ہوتی، بلکہ مورث کے انتقال کے بعد وہ (عاق شدہ) وارث بھی مثل دیگر ورثا کے وراثت میں حق دار ہوتا ہے، رحمت خاں کے والد کی مملوکہ آبائی جائداد کے جس طرح رحمت خاں حق دار تھے اسی طرح ان کے بھائی عظمت خاں بھی حق دار تھے، البتہ جن لڑکیوں کا رحمت خاں کے والد کی زندگی میں انتقال ہوچکا تھا، وہ یا ان کی اولاد حق دار نہ ہوں گی، اور جو تین لڑکیاں ان کے والد کے انتقال کے وقت زندہ تھیں، وہ وراثت میں ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ کی حق دار ہوں گی۔ کلیم کے بعد کتنی زمین ملی او راسے کس طرح تقسیم کیا گیا، یہ تقسیم شریعت کے مطابق ہوئی یا نہیں، یا کسی فریق کا حصہ و حق رحمت خاں کے ذمے باقی رہا، اب اس کا فیصلہ تو آخرت میں ہوگا۔ (۲) ”الف“ لڑکی اور اس کے ورثا کے حق کے سلسلے میں رحمت خاں نے پوتوں کو جو ہدایت دی تھی، اس کی روشنی میں ”الف“ کی اولاد کے ساتھ مصالحت کامعاملہ کر لیا جائے، یعنی مثلاً بہن ”ق“ کو جس قدر حصہ ملا ہے تقریباً اتنی ہی رقم، یا اگر ”الف“ کی اولاد اپنا حصہ اس سے زائد سمجھتی ہے تو اسی کے حساب سے مصالحت کا معاملہ کرکے لین دین کرلیا جائے، اور ”الف“ کی اولاد مصالحتی رقم یا جائداد لے کر اپنے جملہ حقوق سے سبک دوش اور دست بردار ہو جائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند